اسلام آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے مقدمے میں تین ملزمان کو سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق مقدمے کے نامزد ملزمان معظم علی، محسن علی اور خالد شمیم کو پیر کو رینجرز اور پولیس کی نگرانی میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا اور اس موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔
پی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے دس روزہ ریمانڈ کی استدعا کی گئی تاہم جج کوثر عباس نے سات دن کے ریمانڈ کی منظوری دیتے ہوئے ملزمان کو ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔
اس سے قبل اتوار کو ان تینوں ملزمان کو ڈیوٹی مجسٹریٹ اسلام آباد کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جنھوں نے ان کا ایک دن کا راہداری ریمانڈ دیا تھا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما اور سابق رکن پارلیمان عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے گھر کے باہر ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
لندن میں میٹروپولیٹن پولیس اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے تاہم واقعے کے پانچ برس سے زیادہ عرصے گزرنے کے بعد پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی مدعیت میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سمیت سات افراد پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما اور سابق رکن پارلیمان عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں قتل کر دیا گیا تھا
ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمے میں الطاف حسین کے علاوہ ان کے رشتہ دار افتخار حسین، رابطہ کمیٹی کے رکن محمد انور، معظم علی، خالد شمیم، کاشف خان اور محسن علی کے نام شامل ہیں۔
ان سات ملزمان میں سے تین افراد معظم علی، محسن علی اور خالد شمیم پہلے ہی پاکستان کے قانون نافد کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں۔
معظم علی کو رواں برس اپریل میں کراچی میں ایم کیو ایم کے صدر دفتر نائن زیرو کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے مبینہ طور پر اُن دو افراد کو لندن بھجوایا جن پر ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کرنے کا الزام ہے۔
حکام نے خالد شمیم اور محسن علی کی گرفتاری رواں برس جون میں ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ انھیں چمن کے قریب پاک افغان سرحدی علاقے سے پکڑا گیا۔
وزارت داخلہ کے مطابق ان تینوں زیرِ حراست افراد کو اب برطانیہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا جبکہ دیگر ملزمان کو برطانیہ سے یہاں لانے کی کوشش کی جائے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین ملزموں کے تبادلے کے حوالے سے کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔