ہمیں ایسی معلومات موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دولت اسلامیہ کا تیل ترک حدود سے گزرتا ہے
روس کے صدر ولادی میر پوتن نے ترکی پر الزام لگایا ہے کہ اس نے روس کے جنگی طیارے کو شام کی سرحد کے قریب خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم کے ساتھ تیل کی تجارت کو محفوظ بنانے کے لیے گرایا۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں پر عالمی کانفرنس کے موقع پر روسی صدر ولادی میر پوتن نے کہا کہ ’ان کے جنگی طیارے کو گرانے بہت بڑی غلطی تھی۔‘
پیر کو پیرس میں نیوز کانفرنس میں ولادی میر پوتمن کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس یہ سوچنے کی تمام وجوہات موجود ہیں کہ ہمارے جنگی طیارے کو ترک حدود میں داخل ہونے والی تیل کی سپلائی لائنز کو محفوظ رکھنے کے لیے گرایا گیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ایسی معلومات موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دولت اسلامیہ کا تیل ترک حدود سے گزرتا ہے۔‘
تاہم ترکی نے دولت اسلامیہ کے ساتھ تعلقات کی تردید کی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی اتحاد کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں کا حصہ ہے۔
ترک حکومت نے روسی جنگی طیارے کو گرائے جانے پر معافی مانگنے سے انکار کیا ہے۔
24 نومبر کو شام کی سرحد کے قریب گرائے جانے والے روسی طیارے کا ایک پائلٹ ہلاک ہو گیا تھا جبکہ دوسرے پائلٹ کو بچا لیا گیا تھا۔ ترکی کا کہنا ہے کہ روس کا جبگی طیارہ اس کی فضائی حدود میں داخل ہوا تھا جبکہ روس نے ترکی کے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
واضح رہے کہ روس شام میں صدر بشار الاسد کے مخالف باغیوں سمیت دولت اسلامیہ کو فضائی حملوں کے ذریعے نشانہ بنا رہا ہے۔
روس ترکی پر اس کے جنگی طیارے کو گرانے کے بعد سے کئی پابندیاں بھی لگا چکا ہے جن میں ترکی سے کھانے کی اشیا کی درآمدات اور ویزا فری سفر پر پابندی شامل ہے۔
دولت اسلامیہ زیادہ تر پیسہ تیل کی غیر قانونی فروخت سے کماتا ہے تاہم ترکی اس کے ساتھ تیل کی تجارت میں شامل ہونے کی سختی کے ساتھ تردید کر چکا ہے۔