کراچی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سابق وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین کو چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
پولیس نے انھیں گلبرگ تھانے منتقل کر دیا ہے۔
جمعرات کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں سندھ کے پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان نے عدالت سے چار روزہ ریمانڈ کی استدعا کہ جسے جج نعمت اللہ پھلپوٹو نے منظور کر لیا۔
اس موقع پر رینجرز کے خصوصی پراسیکیوٹر حبیب احمد نے اعتراض کیا کہ سندھ کے پراسیکیوٹر شہادت اعوان اس کیس میں پیش نہیں ہوسکتے کیونکہ رینجرز بھی اس کیس میں میں فریق ہے۔
انھوں نے کہا کہ پولیس اور رینجرز نے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی تھی مگر پراسیکیوٹر نے اسے کمرۂ عدالت میں تبدیل کر دیا۔
سماعت کے دوران ڈاکٹر عاصم کے وکیل عامر رضا نقوی نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ گرفتاری سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور تحویل کے دوران ان پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا گیا ہے۔
عاصم حسین پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے نجی ہسپتال میں دہشت گردوں کا علاج کیا ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عاصم کو 26 اگست کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
بدھ کی شب ڈاکٹر عاصم کا رینجرز کی تحویل میں 90 روزہ ریمانڈ پورا ہونے کے بعد انھیں گلبرگ تھانے لایا گیا تھا جبکہ ان کے خلاف نارتھ ناظم آباد کے تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عاصم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین 2009 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ سے سینیٹر منتخب ہوئے اور وہ 2012 تک وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل رہے۔
سنہ 2012 میں وہ سینیٹ سے اُس وقت مستعفی ہوئے تھے جب سپریم کورٹ نے دوہری شہریت کے حامل اراکینِ کو پارلیمان سے کو نااہل قرار دیا۔
ڈاکٹر عاصم حسین کا شمار سابق صدر آصف زرداری کے قریبی رفقا میں ہوتا ہے اور سندھ حکومت نے 2013 میں ان کو سندھ کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔