دلِ معصوم — شاعر: اویس اکبر

حسرت کو یوں سنبھالا دل نے
گویا اک بے نام وعدہ کیا خود سے
دلِ معصوم کی سادگی پہ میں کیا لکھتا؟
کبھی تو اک نظرِ دلفریب ہم پہ رکھتا
عمرِ رفتہ کی داستاں اب زہر لگتی ہے
کہ مکمل زِیست ہی فریبِ نظر لگتی ہے
یقیں میرا صبر کھا گیا
نامِ وفا پہ اب اور ستم سہہ نہیں سکتا
راہِ تمنا پہ پھر سے چل پڑوں کیا؟
خیرات بٹ رہی ہےکیا؟
دلِ ناداں ہے ،پر ہے تو میرا
درد میرا، رنج میرا، پر انتظار تیرا
ہو کے چَکنا چُور بے بسی میں
تجھے بخت کے بازار میں بہت ڈھونڈا
تو نہیں ملا
فریب کے اک گھروندے میں تیرا بسیرا نکلا
یہ میرا تجھ کو تلاش کرنا بھی محض اک سراب نکلا
نکل آؤ خود فریبی کے سمندر سے
کہ درد انگیز ہے قصہّ الفت سارے کا سارا
سرِ راہ جب اُس کو پُکارا میں نے
وہ رُک تو گیا لیکن، دلِ بے مدعا ہی ٹھہرا
منزل تک رسائی نہ تھی سو راستے سے ہی لوٹ آیا
وہ کیا جانے دلِ خانہ خراب کا شوقِ بربادی
کبھی رونا، کبھی ہنسنا، کبھی راہ تکنا
یاس و ہراس کا مارا مرا دل، اس کے قریں رہا
پہنا کر زنجیر دلِ مغموم کو، وہ کہہ گیا
تم آزاد ہو
اے صنم!تیرا یہ طرزِ ستم کب بدلے گا؟
دلِ خوش فہم ہے کہ نگاہِ بسمل کو اک دن
قرار آئے گا، لاجواب آئے گا
اپنے معصوم لہجے میں، کہہ دیا دلِ معصوم کو
بس، اب بس کردے
شیشہ مزاج ہیں ہم، ہم پر سنگِ ستم نہ پھینکے

اپنا تبصرہ بھیجیں