میری معصوم بھولی بھالی عوام آخر کب تک ان سیاستدانوں کے عشق میں لہو کے دیے جلاتے رہو گے۔ کبھی کسی کے عشق میں کبھی کسی کے جنون میں کبھی کسی کو اقتدار کی مسند پر بٹھانے کیلئے اور کبھی کسی کو مسند سے ہٹانے کے لئے یہ سیاستدان آخر تجھ سے ہی کیوں قربانی مانگتے ہیں کبھی سوچا بھی ہے تونے۔ ان لیڈروں کے لئے اپنی اور اپنے پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہو ۔ کبھی تیرا درد تجھ سے کسی نے پوچھا ہے۔ لیڈروں کی جان پر ذرا سی تکلیف ائی تو انہوں نے لاکھوں جانوں کو مشکل میں ڈال دیا یہ لوگ صرف کال دیتے ہیں یہ سوچے بنا کہ اس کا انجام کیا ہوگا ان کی بلا سے کوئی گھر کا واحد کفیل ہو یا گھر کا اکلوتا لاڈلا بھائی چاہے وہ ماں کی جان ہے یہ بوڑھے باپ کا سہارا صرف اقتدار چاہیے یہی ہے نا ہمارے لیڈران کی خواہش جب ان کے لیے لوگ شہید یا غازی بنتے ہو۔ جان دینے کے بعد تیرے گھر والوں تعزیت بھی کرنے نہیں آتے، ان کو تیرا نام بھی یاد نہیں رہتا۔ یہ کیسی آزادی کی جنگ یا اقتدار کی جنگ جس میں بھائی کو بھائی سے لڑایا جاتا ہے۔ پولیس کا مرے تو وہ شہید پارٹی ورکر مرے تو وہ بھی شہید ۔ احتجاج کے دوران دنیا سے چلے جانے والے کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا قاتل کون ہے۔ پھر اس کی لاش پر چند دن پارٹی لیڈر بڑے بڑے اعلانات کرتے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی نہ صرف اس کو بھول جاتے ہیں بلکہ اس،کے قاتل کو بھی معاف کردیتے ہیں۔ کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کے جنازہ میں کوئی لیڈر بھی نہیں ھاتا۔ مرشد کا چولہا تو مریدین چلاتے رہتے ہیں مگر ورکر کی موت کے ساتھ اس کے گھر کا پتہ ہے ان کا چولہا بجھ جاتا ہے۔ اداروں کے ساتھ جھگڑے پر گرفتاری کی صورت میں بھی کوئی مچلکے تک بھرنے نہیں آتا۔ وہ چاہے کوئی بھی پارٹی ہو یہ سب ہوتا ہے کئی گھرانے ایسے ہوں گے جہاں عمر بھر کے رونے ہوں گے عمر بھر کے فاقے ہوں گے ساری عمر کی جدائی ہوگی۔ احتجاج کی کامیابی پر اقتدار میں آتے ہیں سب سے پہلے تیری موت پر جشن منایا جاتا ہے۔ ان کو تیرا نام بھی یاد نہیں ہوگا۔ ان کو کیا لگے کتنی ماؤں نے اپنے لال گنوا دیے اور جن کو روتے روتے ان کی بینائی تک چلی گی کتنی بیوائیں ہوں گی جو اپنے بچوں کو پڑھائی سے ہٹا کر مزدوری پہ لگا دیں گی, کتنی بہنیں ہوں گی جن کی ڈولیاں اٹھنے سے رہ جائیں گی یہ کال دینے والے لیڈر یا تو جیل سے رہائی کے لئے یا جلاوطنی سے واپسی کے لئے دیتے ہیں وہ اپنی اولادوں کو بیرون ممالک بٹھائے رکھتے ہیں۔ خالیہ اسلام آباد کے کی ریلی ایک زندہ مثال ہے لیڈ کرنے والے میدان سے بھاگ گئے اور گولیوں کا نشانہ غریب ورکر بنے آخر کب سمجھو گے۔ میری معصوم عوام آخر تو کب سمجھے گی۔ ان کو اپنی عورتیں بیٹیوں کی عزتیں عزیز ہیں جبکہ دوسروں کی بیٹیوں سے سٹیج پر رقص کرایا جاتا ہے کیا ان عورتوں کی عزت نہیں ۔ سوچ میری معصوم قو آخر کب تک ان کی کٹھ پُتلی بنی رہے گی۔ ہمارے اصلی قائد ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اصلی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان تھی آج بھائی خو بھائی سے لڑایا جا رہا ہے۔ مسلمان کا خون بہا کر کس کو خوش کیا جا رہا ہے۔ ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل کر کس کے ایجنڈے پر کام کیا جارہا ہے سوچ میری معصوم بھولی بھالی قوم۔ کب تک ان سیاستدانوں کی لڑائی کا ایندھن بنتے رہو گے۔ اپنے ہی ملک اپنے ہی اداروں کے خلاف کب تک ملک دشمنوں کے آلہ کار بنے رہے گے۔ آخر کب تک۔۔۔