آج ایک تصویر میری آنکھوں کے سامنے آئی تو دل کی اداس نگری میں درد و ہجر کی موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ اپنوں کے بچھڑنے کے زخم پھر سے تازہ ہو گئے۔ زندگی کے تمام دکھ درد اور الم سر اٹھا کر بیٹھ گئے۔ جیسے یہ میرے حقیقی دوست احباب ہوں۔ جو میرے ھر دکھ درد تکلیف میں میرے ساتھ شانہ بشانہ ھوتے ہیں۔ یہ تصویر دسمبر 2018 کی ہے۔ یہ اس وقت کی تصویر ہے جس روز میں عمرہ کرنے کی سعادت کے لیے سفر مقدس پر روانہ ہونے لگا۔ تو میرے والدمحترم مستری محمد اقبال عاقل اور میرے پیارے دوست اور لنگوٹیے بھائی حاجی محمد ارشاد نے میرے گلے میں گلاب کے پھولوں کے ہار پہنائے اور مجھے سفرحجاز کے لیے الوداع کیا۔
اس تصویر میں ہم تینوں ھیں ۔اس دن میری دونوں یہ پیاری ھستیاں بہت خوش تھیں۔ ان کی خوشی کا اندازہ تصویر سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے چہرے خوشی سے چمک دمک رہے ہیں۔ میرے ان پیاروں نے دوسرے دوست احباب بھائیوں اور میرے بیٹوں بیٹی کے ھمراہ فیصل آباد ائیرپورٹ تک الوداع کرنے گئے۔ میرے ان تمام پیاروں کی خوشی دیدنی تھی۔
عمرہ کے لیے اس سفر مقدس پر روانگی کے وقت میں بہت رنجیدہ اور افسردہ تھا۔ دل خون کے آنسو رو رھا تھا ۔ میری یہ افسردگی اور اضطرابی کیفیت والدہ محترمہ کی یاد کی وجہ سے تھی۔ میری یہ بے چینی کی حالت دیکھ کر صرف میرے والد محترم نے بھانپ لیا تھا انہوں نے مجھے علیحدہ بلا کر کہا میں جانتا ھوں کہ تم اپنی ماں کو یاد کر کے افسردہ ہو۔ تم اپنے آپ کو سنبھالو ۔ تم جس اعلیٰ و ارفع مقام پر جا رہے ہو وہاں اپنی ماں کے لئے جی بھر کر دعائیں کرنا۔ مجھے نہیں علم تھا کہ میرے دل کی بات بوجھنے والی یہ ھستی صرف أج مجھے ایئرپورٹ پر الوداع نہیں کرنے آئی ہے۔ ان کے ساتھ جو حاجی محمد ارشاد بھی بہت گرم جوشی سے الوداع کرنے آئے ہیں۔ خود دونوں ھستیاں کچھ عرصہ کے لیے میری خاموش مہمان ہیں۔
جو مجھے اس دنیا میں اکیلا چھوڑ جائیں گیئں۔ اور یہ مجھے الوداع کہنے کے وقت کی تصویر میرے لیے تنہایئوں میں رونے تڑپنے اور سسکنے کے لیے رہ جائے گی۔ سچ تو یہی ھے کہ وہاں جانے والے کبھی نہیں لوٹتے۔ ھم تڑپنے والوں نے ہی ان کے پاس جانا ھے۔ یہ 5 اکتوبر 2021 کی صبح تھی جب حاجی محمد ارشاد کا روڈ ایکسیڈنٹ ھوا جس میں وہ شدید زخمی ھوئے۔ اور صرف12 دن بعد17اکتوبر2021 اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کی ناگہانی وفات پر میں نے اپنے والد محترم کو بہت افسردہ اور غمگین دیکھا۔ کیونکہ میرے والد محترم حاجی محمد ارشاد کو اپنا چھٹا بیٹا سمجھتے تھے۔ مرحوم حاجی محمد ارشاد نے بھی اپنی زندگی میں انہیں بیٹا بن کر دکھایا تھا۔ میں اور حاجی محمد ارشاد چونکہ روزانہ 16 سے 18 گھنٹے اکٹھے رھتے تھے۔ تو ان کی اچانک وفات نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان کی وفات کے دن سے میں اس قدر بیمار ھوا کہ صرف چارپائی کا ھو کر رہ گیا ۔ میں 28 نومبر 2021 کو آہستہ آہستہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا۔ کمزوری بہت ہو گئی تھی۔
مجھے ابھی چلنے پھرنے میں پانچ دن ھوئے تھے کہ والد محترم کو ہارٹ اٹیک ھو گیا۔ ان کو آئی سی یو وارڈ میں ایڈمٹ کرنا پڑا۔ صرف ایک دن ھسپتال میں گزارنے پر 2 دسمبر2021 کی شام کو ھمیں الوداع کر کے اپنے حقیقی خالق و مالک رب العزت کو پیارے ھو گئے۔ اکتوبر اور دسمبر کا یہ مہینہ میرے لیے بہت درد ناک اور المناک ثابت ہوا۔ پھر میری کیا حالت ہوئی۔ میں لکھنے سے قاصر ھوں۔ میری دوست میری جان میری جنت میرا سب کچھ میری والدہ محترمہ 27 اکتوبر 2015 کو مالک حقیقی کو پیاری ہو گئیں تھیں۔ ان پیاری ہستیوں کے بعد زندگی نے شکنجہ روز بروز کسنا شروع کر دیا۔ پھر علم ھوا کہ زندگی کی بےفکری ان ھستیوں کی وجہ سے تھی۔ جب دعا دینے والی ھستیاں اس دنیا سے کوچ کر جاتی ھیں تو اس ظالم سماج کے نام نہاد رشتے گدھ بن کر نوچنے لگتے ہیں ۔ یہ وہ گدھ ھوتے ھیں جو زندہ انسانوں کا نہ صرف گوشت نوچتے ھیں بلکہ ھڈیاں تک چباتے ہیں۔
تصویریں کبھی بھی پیاروں کا نعم البدل نہیں ہوتی۔ تصویریں زخموں کو کریدتی ہیں۔ زخم تازہ کرتی ھیں ۔ جن کی اعلیٰ و ارفع ھستیاں موجود ھیں وہ اللہ کا شکر ادا کریں اور ان پیاروں کی قدر کریں ان پیاروں کی بہت زیادہ خدمت کریں۔ اس دنیا میں حقیقی عقلمند وہ ہے جو بروقت وقت کی قدر کرے اور دوسروں کے تجربات سے سبق سیکھے۔ رب اللعالمین تمام مرحومین کی مغفرت فرماء کر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے ۔آمین ثم آمین ۔