امریکہ کے دوسری مرتبہ منتخب ہونے والے صدر ٹرمپ کی جیت کا سب کو یقین تھا۔ امریکی ووٹروں کا حالیہ رجحان اُس تبدیلی کی طرف ایک اور قدم ہے جو دنیا میں بڑی تیزی سے آرہی ہے۔ یہ تبدیلی تجزیہ نگاروں کو محسوس کرنی چاہئے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے دنیا کو نظریاتی نعروں میں تقسیم کیا گیا جس میں سرمایہ کاری، کمیونزم اور لسانی و مذہبی نعرے وغیرہ شامل تھے۔ اس کی وجہ کچھ بھی تھی لیکن یہ سب نعرے سرد جنگ کا ایندھن بنے۔ سرد جنگ کے ختم ہونے یعنی بیسویں صدی کے اختتام سے تھوڑا عرصہ پہلے گلوبلائزیشن کی بات کی جانے لگی۔ اس نظریئے کے تحت علاقائی شناخت اور علاقائی ثقافت وغیرہ کو مسترد کیا گیا۔ گویا پوری دنیا کی ایک شناخت ایک پہچان ہوگی۔ گلوبلائزیشن کا نظریہ اپنے تمام تر دلکش اثرات کے باوجود بھی زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چلا اور اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی اینٹی گلوبلائزیشن کے اثرات دنیا پر نمایاں ہونے لگے۔ دنیا کی گلوبلائزیشن سے لاتعلقی کی وجہ شاید گلوبلائزیشن کے نظریئے کی بنیاد کا غیرفطری اصولوں پر رکھا جانا تھا۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ یکسانیت کو زیادہ عرصے تک قبول نہیں کرتا اور اپنی علیحدہ شناخت کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اس کی بڑی مثال سوویت یونین کا ٹوٹ جانا ہے۔ بیشک اِس میں بیشمار دیگر عوامل شامل ہیں لیکن اُن تمام عوامل نے یکساں سوویت یونین کے باشندوں میں یہی احساس پیدا کیا کہ وہ یکسانیت کے قیدی ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے تقریباً 26 برس بعد یعنی جون 2016ء میں برطانوی باشندوں نے اپنی شناخت کا اعلان یورپی یونین سے علیحدگی کا ووٹ دے کر کیا۔ دنیا بھر کے لوگوں کے لئے برطانوی عوام کا یہ فیصلہ بھی ایک اَپ سیٹ تھا لیکن دراصل یہ اَپ سیٹ نہیں تھا بلکہ برطانیہ کا یورپی یونین کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے ریفرنڈم سے پہلے ہونے والے سطحی اور ریسرچ سے دور تجزیؤں کی پیشین گوئیوں کے خلاف تھا۔ ان تجزیؤں میں یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ دنیا بھر میں علاقائی شناخت کو نظریاتی شناخت سے زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔ یعنی گورے انگریز اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے یورپ کے دوسرے باشندوں سے علیحدہ رہنا چاہتے ہیں۔ بیشک اس کا انہیں جتنا بھی مالی یا کاروباری نقصان کیوں نہ ہو۔ اسی لیے ریفرنڈم میں انگریزوں نے اپنی علاقائی شناخت کو ترجیح دی۔ حالیہ امریکی انتخابات میں ٹرمپ نے کملا ہیرس کو شکست فاش دی۔ ٹرمپ نے دراصل یہ شکست کملا ہیرس کو نہیں بلکہ اُن تجزیؤں کو دی جنہوں نے دنیا میں انسانوں کے بدلتے مزاج کو مدنظر نہیں رکھا یا یوں کہئے کہ انسانوں کو اپنے فطری مزاج کے قریب جاتے نہیں دیکھا۔ برطانوی ریفرنڈم یا امریکی انتخابات کی سروے رپورٹیں بھی علاقائی شناخت کے حامیوں کی بجائے یکسانیت اور مساوی نظریات کے حامیوں پر مشتمل تھیں۔ سب کا یہی خیال تھا کہ ٹرمپ اور کملا ہیرس کا مقابلہ ایک رسمی کاروائی ہے لیکن نتائج نے اس نظریئے کو شکست دے دی۔ اگر تحقیق کریں تو پتا چلے گا کہ ٹرمپ نے اُن ایشوز کو ایڈریس کیا جو علاقائی شناخت کو فروغ دیتے ہیں۔ یعنی ٹرمپ نے امیگریشن کے حوالے سے سخت ترین پالیسیاں بنانے کا کہا۔ گویا وہ امریکہ کو غیرملکیوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی امریکی اپنی علاقائی شناخت برقرار رکھیں۔ ٹرمپ نے امریکی کسانوں کی بات کی اور کہا کہ امریکی کاشتکاری پر نیگروز کی بجائے گورے امریکیوں کا زیادہ حق ہے۔ اُن کے خیال میں امریکی کاروبار یا امریکی دولت پر صرف گورے امریکیوں کا ہی حق ہے۔ ٹرمپ نے مسلمانوں کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا۔ یہاں بھی اُن کا مقصد یہی تھا کہ امریکہ کی عیسائی شناخت برقرار رہے۔ ٹرمپ کی مہم کے تمام نکات لبرل امریکہ کے خلاف تھے لیکن وہ پھر بھی جیت گئے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ٹرمپ نے عام گورے امریکیوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ گورے امریکیوں کی حیثیت سے اپنی شناخت منوائیں۔ مذکورہ دلائل میں ایک بات اور غور طلب ہے کہ نظریاتی نعرے عموماً بالائی طبقے یا اپرمڈل کلاس کے مفاد کے ہوتے ہیں اور نچلے طبقے کو اُن میں شامل کیا جاتا ہے جبکہ علاقائی شناخت نچلے طبقے کی پہچان ہوتی ہے۔ یکسانیت یا لبرل ہونے کے نظریئے کو ٹرمپ نے بلاواسطہ چیلنج کیا اور نچلے طبقے کے گورے امریکیوں کو یہ باور کرایا کہ آپ اس ملک کے اصل باشندے ہیں جن کے حقوق پر غیرملکیوں یا غیرمذہبیوں نے قبضہ کرنا شروع کردیا ہے۔ ٹرمپ نے اُن میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہی لیڈر امریکہ کا اصل لیڈر ہوگا جو گورے امریکیوں کو امریکہ واپس دلوائے گا۔ چونکہ یکسانیت اور مساوی ہونے کے نظریات کے اصل مالک بالائی یا اپرمڈل کلاس طبقے تھے لہٰذا اُس مخصوص طبقے نے ٹرمپ کی مخالفت کی مگر عام گورے امریکیوں نے انہیں ووٹ دیا۔ گلوبلائزیشن کی مخالفت کی مثالیں صرف سوویت یونین، برطانیہ یا امریکہ میں نظر نہیں آتیں بلکہ عرب اور ایشیاء میں بھی اس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے انسانوں کے بدلتے ہوئے رویوں کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اگلی چند دہائیوں کے اندر دنیا گلوبلائزیشن سے منہ موڑ کر مکمل طور پر علاقائی پہچان کی طرف چلی جائے گی جوکہ ہر علاقے کے عام باشندوں کی فتح ہوگی۔