ٹی ایچ کیو ہسپتال کمالیہ انسولین کا معاملہ اور نشانہ، ایماندار MS ڈاکٹر اعجاز فرزند کمالیہ۔

گاڈ گفٹڈ چیزیں ایک اچھے ڈاکٹر کے پاس ہی ہوتی ہیں۔ براہ کرم ٹی ایچ کیو کو ایک اچھا ایم ایس ڈاکٹر اعجاز ملا ہے۔ قائم رہنے دیا جائے خدارا۔

کمالیہ کی عوام ایم ایس ڈاکٹر اعجاز صاحب کی کارکردگی سے مطمئن اور خوش ہیں۔

کمالیہ ( سروے رپورٹ) مہر محمد شفیق، محمد طارق راجپوت بھٹی، محمد سجاد، مراد علی (جالندھر ٹینٹ سروس) ماموں موڑ والے، کاروباری و سماجی شخصیت محمد حمزہ (میاں آٹوز ٹریکٹر سپیئر پارٹس) ماموں موڑ والے، الحاج حبیب الرحمان رحمانی، سینئر صحافی ہردلعزیز سماجی فلاحی شخصیت غلام مرتضیٰ ایڈیٹر ملٹی میڈیا اور دیگر مزہبی، فلاحی، سیاسی، سماجی، صحافتی شخصیات نے کہا ہے کہ ہمارا ذاتی طور پر ڈاکٹر اعجاز سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ان کے والد ماسٹر غضنفر صاحب نے ان کو ایسی تربیت دی ہے کہ وہ عام مریض کو بھی مکمل سہولیات دیتے ہیں۔ انسولین کا معاملہ نہیں بلکہ ذرائع کے مطابق سیاسی آفس نہ ملنے کا معاملہ ہے من مانے کی افراد کو نوازنے کا معاملہ ہے۔ انسولین کے لیے آنے والے بزرگ کو اور میڈیا والوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ انسولین ملنے کی ڈیٹ نہیں ہے۔ اور انسولین کی ڈیمانڈ کی جا رہی ہے۔ بہرحال جب سے ڈاکٹر اعجاز صاحب نے چارج سنبھالا ہسپتال کا کام نہ کرنے والا عملہ، ادویات غائب کرنے والے، اور ٹائم پر نہ آنے والے، اور ویلے بیٹھنے والے سب ڈاکٹر اعجاز صاحب سے تنگ ہیں البتہ کمالیہ کی عوام اس بندے سے خوش ہیں۔ ان کے اپنے رشتے دار سے ملاقات ہوئی کہتا کہ ڈاکٹر اعجاز صاحب کو انسولین کا کہا آگے سے جواب ملا کہ دن اور اپنی باری پر لے کر جائیں البتہ ایک مرتبہ میرا جانا ہوا ایمرجنسی رات کے وقت ایک نرس کا روئیہ انتہائی غیر اخلاقی تھا میرے ساتھ لیکن کبھی کبھار ہو جاتا ہے۔ مجھے ایک مریض کا پتہ کرنا تھا اور تو میں اعجاز صاحب کے بھائی کو ساتھ لیا گیا نہ انہوں کے عملے کو بتایا کہ میں ms کا بھائی ہوں نہ ہسپتال کے عملے نے کوئی پروٹول دیا کہ میڈیکل آفیسر کا بھائی ہے مطلب اپنے بھائی کی بھی کوئی سفارش نہیں چلتی۔ لیکن کمالیہ کی شہری ہونے کی حثیت سے میں ڈاکٹر اعجاز صاحب کی کارکردگی سے مطمئن ہوں کیونکہ وہ سیاسی ٹاؤٹ مافیہ کے انڈر کام نہیں کرتے۔ اس انسولین کے معاملے اندر ایم ایس نشانہ ہے۔ اور ایم ایس ڈاکٹر اعجاز صاحب اگر کہیں اور چلے جاتے ہیں تو ڈاکٹر ہی رہیں گے۔ ان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن کمالیہ کی عوام کو پڑے گا۔ ہسپتال میں لوگ کام نہیں کریں گے عوام کو ذلیل کریں گے۔ ایک اور بات میرے زرائع کے مطابق ڈاکٹر صاحب بلا وجہ سیاسی بھرتیوں کا صاف جواب دیا ہے۔ ایڈووکیٹ خان مدثر کھرل نے کہا ہے کہ ڈاکٹر اعجاز صاحب کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے آنے والے ہر مریض و مریضہ سے حسنِ سلوک و خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔ ایک عاجز اور ایماندار شخصیت ہیں۔ بسا اوقات ڈیوٹی ٹائم آف ہونے کے بعد بھی شام تک اپنے آفس موجود ہوتے ہیں۔ انسولین اور ادویات کی ذمہ دار ضلعی انتظامیہ ہے۔ ڈاکٹر اعجاز صاحب نے اپنے گھر سے انسولین اور ادویات نہیں دینی ہوتیں۔ جتنی ادویات پہنچائی جاتی ہیں اتنی مل جاتی ہیں۔ اگر مریض ہسپتال موجود ہو تو انسولین باری آنے پر ملتی ہے۔ باقی بطور پاکستانی شہری ہونے کے ناطے سے ڈاکٹر صاحب کے خلاف غلط افواہیں پھیلانے کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ اگر کسی دوست کو ڈاکٹر صاحب کی کہیں بھی کسی بھی معاملے میں نا اہلی نظر آئی ہے تو آئیں ثابت کریں۔ حق سچ کی صحیح و درست پرکھ کی جائے خدارا کسی کو بھی کوئی حق اور کوئی اختیار حاصل نہیں کہ سینیئر میڈیکل سپریٹینڈنٹ کو عوامی محفل لگا کر تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ اور نا ہی قانون اجازت دیتا ہے شریف شہری کی عزت نفس کو مجروح کرنا۔ ایک سینیئر اور اچھے ڈاکٹر سے زیادہ کوئی بھی کسی مریض کو ڈیل نہیں کر سکتا۔ یہ گاڈ گفٹڈ چیزیں ایک اچھے ڈاکٹر کے پاس ہی ہوتی ہیں۔براہ کرم ٹی ایچ کیو کو ایک اچھا ایم ایس ملا ہے. قائم رہنے دیا جائے خدارا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں