مطالعہ عقل و شعور میں وسعت پیدا کرتا ہے مطالعہ کرنے سے ہم ماضی کے ادوار سے واقفیت حاصل کرتے ہیں جس سے ہمیں گزرے حالات سے نہ صرف سبق ملتے ہیں بلکہ اپنی منزل تک پہنچنے اور معاشرے کی بہتری کے لیے مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے 1960 سے2000 تک مطالعہ کرنے کی روایت بہت مضبوط نظر آتی ہے اس کے بعد جیسے جیسے زمانے نے ٹیکنالوجی میں ترقی کی ٹی وی چینل آۓ اور موبائل نے ظاہری طور پر انقلاب برپا کیا لوگ کتاب سے دور ھوتے چلے گۓ۔اب نوجوان نسل کو مطالعہ سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے جس وجہ سے نہ تو وہ دین اسلام کی تعلیمات سے بہرہ ور ہیں اور نہ ہی پاکستان بڑھنے کی تاریخ جدوجہد اور قربانیوں سے واقف ہیں ۔ اخلاقی طور پر بھی ھمارا معاشرہ انحطاط کا شکار ھے ۔ذیل میں دو تاریخی واقعات کر رہے ہیں ان کی نظر کر رہا ہوں ان دونوں واقعات میں پاکستان کے حوالے سے بہت علم ہے صرف سمجھنے کی ضرورت ہے امید ہے قارئین ان دونوں واقعات کو پڑھنے کے بعد اپنی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق ضرور نتیجہ نکالیں گے ۔
یہ ستمبر 1948 کی بات ہے
جب ہندوستان نے ریاست جونا گڑھ پر یہ کہہ کر قبضہ کرلیا کہ
ریاست کا حکمران (نواب مہابت خان) لاکھ مسلمان سہی مگر ریاستی عوام کی اکثریت تو ہندو ہے
جونا گڑھ پر بھارتی قبضہ کے بعد نواب مہابت خان بدقت تمام اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچا کر اور مختصر ضروری سامان لے کر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے
یہاں انہوں نے اُس وقت کے دارالحکومت کراچی کے مشہور علاقے کھارادر میں قیام کیا
*یہ وہی علاقہ ہے جہاں کی ایک سڑک پر وزیر مینشن نام کی وہ سہ منزلہ عمارت واقع ہے جسے قائد اعظم کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے
نواب صاحب اپنے سرکاری خزانے میں 48 من سونا چھوڑ آئے تھے اور وہ ایسی جگہ پر
محفوظ تھا جس کا علم نواب صاحب کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ اگر ہندوستانی افواج پورا محل بھی کھود کر پھینک دیتیں تو انہیں سونا نہ ملتا
نواب صاحب کی خواہش یہ تھی کہ وہ سونا کِسی طرح پاکستان لایا جاسکے تو وہ اُس کا نصف حصہ سرکار پاکستان کے خزانہ میں جمع کرا دیں گے
اِس امر سے تو ہر ذی علم واقف ہے کہ اُن دِنوں پاکستان انتہائی بحران کا شکار تھا۔ اگر چند محب وطن لوگ اِس نوزائیدہ ملک کی مدد نہ کرتے تو خاکم بدہن چند ماہ کے اندر ہی اس کا وجود ختم ہوسکتا تھا
نواب صاحب خلوص دل کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے تھے
اگر وہ 24 من سونا پاکستان کے خزانے میں جمع کرا دیتے تو ملکی معیشت خاصی بہتر ہوسکتی تھی مگر سوال یہ تھا کہ
اُسے لایا کس طرح جائے اور کون لے کر آئے؟
اب ایک ہی صورت باقی بچی تھی۔ غیر قانونی ذریعہ
مگر حقیقتا سونے کو خفیہ طریقے سے پاکستان منتقل کرنا
ہندوستان کی نظر میں تو غیر قانونی ہوسکتا تھا
مگر پاکستان یا نواب مہابت خان کے لئے نہیں کیونکہ یہ زر کثیر نواب صاحب کی ملکیت تھا
اب کردار شروع ہوتا ہے کھوٹے سکے کا۔ وہ تھے اُس دور کا مشہور اسمگلر حاجی عبد اللّٰه بھٹی جو سمندر پار بستی صالح آباد میں رہائیش پذیر تھے۔ یہ بستی کراچی کی بندرگاہ کیماڑی سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع ہے
عبد اللہ بھٹی اُس وقت اَسی برس کے تھے اور اپنا پیشہ ترک کرکے یاد الہی میں مصروف تھے
نواب مہابت خان کو جب اِس بارے میں علم ہوا تو انہوں نے پاکستان کی ایک نہایت قابل احترام اور اعلی ترین شخصیت سے درخواست کی کہ وہ اپنے اثر و رسوخ سےعبد ابھٹی
کو اِس بات پر راضی کرلیں کہ
وہ کسی بھی صورت اُن کا سونا جونا گڑھ کے خزانے سے نکال لائے اُس محترم ہستی نے عبد اللہ بھٹی کو اپنے روبرو طلب کرکے
ملک و قوم کی خاطر یہ کام کرنے پر آمادہ کر لیا
جونا گڑھ سمندر کے راستے
کراچی سے تین سو میل دور ہے
عظیم شخصیت کے حکم پر
*بوڑھے مگر پر عزم عبد اللہ بھٹی اپنے بیٹوں قاسم بھٹی اور عبد الرحمن بھٹی کو ساتھ لیکر تیز رفتار لانچوں کے ذریعے جونا گڑھ روانہ ہوگئے
پاکستانی فوج کے چند کمانڈوز بھی اُن کے ساتھ تھے
اِن لوگوں نے ایک بجے دوپہر کو بحری سفر شروع کیا اور خفیہ راستوں سے ہوتے ہوئے
جونا گڑھ کےساحل پر پہنچ گئے
اُس وقت شب کے 10بجے تھے
شاہی محل ساحل سمندر سے
کچھ زیادہ دور نہ تھا
*پاکستانی کمانڈوز نے محل پر متعین بھارتی فوج کے افسران اور سپاہیوں کا خاتمہ کیا
اب دیکھئے اسمگلر کا حسن کردار
جب اُنہوں نے انتہائی اعلی شخصیت کی موجودگی میں 48 من سونا نواب مہابت خان کو پیش کیا تو جہاں نواب صاحب نے حسب وعدہ 24 من سونا حکومت پاکستان کی نذر کیا
وہیں اپنے حصے میں آنے والے 24 من سونے میں سے
4 من سونا حاجی عبد اللّٰه بھٹی کو بطور اِنعام پیش کیا
حاجی عبد اللّٰه بھٹی نے یہ سونا لینے سے انکار کردیا
اور زار و قطار روتے ہوئے بولے
“بابا” میں نے ساری زندگی اسمگلنگ کی مگر وہ انگریز کا زمانہ تھا اب میں نے اسمگلنگ نہیں کی بلکہ پاکستان کا حق حاصل کیا ہے
میں اسمگلر ضرور ہوں
مگر مادر وطن کی دولت نہیں لوٹوں گا۔ پھر دوبارہ رونے لگ گئے
کچھ دیر بعد خاموش ہوئے اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے میں یہ چار من سونا بھی حکومت پاکستان کے خزانے کے لیے پیش کرتا ہوں اِس کے علاوہ میرے پاس ذاتی
3 من سونا ہے جو اِس مقدس دیس کی نذر ہے پھر اُس عظیم ہستی اور نواب مہابت خان کے آنسو بھی نہ رک سکے لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے
*فخر و انبساط کے آنسو.
اور ایک ہمارے اِس دور کے کھوٹے نہیں بلکہ گندے سکے ہیں جو پاکستان کی دولت لوٹ کر دوسرے ملکوں میں لے گئے مگر نہ شرم ہے نہ حیا*
از: اردو ڈائجسٹ
مضمون نگار. پروفسر محمد ظریف خان
دوسرا ایک تاریخی واقعہ قارئین کی نظر ھے ۔
3 جون 1947: انڈیا اور پاکستان کی آزادی کی تاریخ کا فیصلہ
کوئی نہیں جانتا تھا کہ 3 جون 1947 کو انڈیا کی آزادی کی تاریخ طے کی جائے گی۔
ویسے 3 جون 1947 کو وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی آزادی اور تقسیم دونوں کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا لیکن کون سی تاریخ ہوگی اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔
وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس دن ’3 جون پلان‘ یعنی ’ماؤنٹ بیٹن پلان‘ کا اعلان کرنے والے تھے۔
اپنے اعلان سے ایک رات پہلے، ان کی کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنماؤں سے دو ملاقاتیں ہوئیں، جن کا ذکر ڈومینک لاپیئر اور لیری کولنز کی کتاب ‘فریڈم ایٹ مڈ نائٹ’ میں موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پھر اس رات وائسرائے ہاؤس کے لمبے برآمدوں میں اندھیرا اور خاموشی تھی۔
ڈومینک لاپیئر اور لیری کولنز نے اس کتاب میں آزادی سے متعلق بہت سے واقعات بیان کیے ہیں۔
اس کتاب میں آزادی سے متعلق بہت سے واقعات بیان کیے ہیں
3 جون کی رات کیا ہوا
لاپیئر اور کولنز لکھتے ہیں کہ 2 جون 1947 کو سات ہندوستانی رہنما لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے کمرے میں معاہدے کے کاغذات پڑھنے اور سننے کے لیے وائسرائے سے ملنے گئے۔ کانگریس کے رہنما جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل اور آچاریہ کرپلانی تھے۔
اسی وقت مسلم لیگ سے محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور عبدالرب نشتر وہاں موجود تھے، جب کہ بلدیو سنگھ سکھوں کے نمائندے کے طور پر وہاں پہنچے تھے۔ اس پہلی ملاقات میں مہاتما گاندھی شامل نہیں تھے۔
ماؤنٹ بیٹن نے فیصلہ کیا تھا کہ اس میٹنگ میں کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پھر ایک ایک کرکے اپنا منصوبہ بیان کیا:
پنجاب اور بنگال میں، جو ہندو اور مسلم اکثریتی اضلاع ہیں، ان کے اراکین کا علیحدہ اجلاس بلایا جائے گا۔
اگر کوئی جماعت صوبے کی تقسیم چاہتی ہے تو ہو جائے گی۔
دو ڈومینین اور دو آئین ساز اسمبلیاں بنائی جائیں گی۔
صوبہ سندھ اپنا فیصلہ خود کرے گا۔
وہ ہندوستان کے کس حصے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس پر آسام کے شمال مغربی سرحد اور سلہٹ میں ریفرنڈم کرایا جائے گا۔
ہندوستانی ریاستوں کو آزاد رہنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ انھیں انڈیا یا پاکستان میں شامل ہونا پڑے گا۔
حیدرآباد پاکستان میں شامل نہیں ہوگا۔
تقسیم میں کوئی مشکل پیش آئی تو باؤنڈری کمیشن بنایا جائے گا۔
اپنی بات ختم کرتے ہوئے، ماؤنٹ بیٹن نے کہا، ‘میں چاہتا ہوں کہ آپ سب آدھی رات تک اس منصوبے پر اپنا جواب دیں’۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ آدھی رات سے پہلے مسلم لیگ، کانگریس اور سکھ سبھی اس منصوبے کو قبول کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔
دوسری ملاقات، گاندھی اور خاموشی
مہاتما گاندھی نے پہلی میٹنگ میں شرکت سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ کانگریس کے کسی عہدے پر نہیں تھے۔ لیکن ان کا وجود ساری ملاقات پر چھایا ہوا تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن گاندھی کا بہت احترام کرتے تھے۔
لیکن آدھی رات کو ایک اور میٹنگ تھی اور گاندھی اس میں آئے۔ ماؤنٹ بیٹن کو ڈر تھا کہ گاندھی ایسی بات کہہ دیں کہ دونوں کے درمیان دراڑ پڑ جائے۔
لاپیئر اور کولنز لکھتے ہیں کہ ماؤنٹ بیٹن اپنی کرسی سے اٹھے اور مہاتما گاندھی کے استقبال کے لیے تیزی سے آگے بڑھے، لیکن اچانک وہ درمیان میں رک گئے۔ گاندھی نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر انھیں روکا۔ وائسرائے سمجھ گئے کہ آج گاندھی کا خاموشی کا روزہ ہے۔
اس کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے اپنے پورے منصوبے کی وضاحت کی۔ گاندھی نے ایک لفافہ لیا اور اس کی پشت پر کچھ لکھنا شروع کیا۔ لکھتے لکھتے انھوں نے پانچ پرانے لفافے بھر ڈالے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ان لفافوں کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا۔
گاندھی نے لکھا، ’مجھے افسوس ہے کہ میں بول نہیں سکتا۔ میں پیر کو’مون ورت‘ خاموشی کا روزہ رکھتا ہوں۔ خاموشی کا عہد لیتے ہوئے، میں نے اسے صرف دو صورتوں میں توڑنے کی اجازت دی ہے۔ ایک، جب کوئی فوری مسئلہ ہو اور دیگر جب کسی بیمار کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ نہیں چاہتے کہ میں آج اپنی خاموشی توڑوں۔ مجھے ایک دو باتوں کے بارے میں کچھ کہنا ہے لیکن آج نہیں۔ اگر میں دوبارہ ملا تو ضرور کہوں گا۔‘
اس کے بعد گاندھی وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔
محمد علی جناح کا انکار
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے وقت کی حد کے اندر کانگریس اور سکھوں سے رضامندی حاصل کر لی تھی لیکن محمد علی جناح اس پر راضی نہیں تھے۔ ڈومینک لاپیئر اور لیری کولنز نے اس واقعے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ ’اس کے بعد میں یہ کہوں گا کہ میری جناح صاحب کے ساتھ کل رات بہت دوستانہ بات چیت ہوئی اور ہم نے اس پلان پر تبادلہ خیال کیا اور جناح صاحب نے ذاتی طور پر مجھے یقین دلایا کہ وہ اس پلان سے متفق ہیں۔‘
تقسیم کا اعلان
اور پھر وہی ہوا جیسا کہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم اور آزادی کی رسمی قبولیت کے لیے ہندوستانی لیڈروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جس میں سب کچھ اسی طرح ہوا جیسا کہ اس نے ایک رات پہلے محمد علی جناح کو بتایا تھا۔
3 جون 1947 کو شام سات بجے کے قریب تمام سرکردہ لیڈروں نے دو الگ ملک بنانے پر رضامندی کا باقاعدہ اعلان کیا۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے سب سے پہلے بات کی۔ اس کے بعد نہرو نے ہندی میں کہا، ’درد اور اذیت کے درمیان، ہندوستان کا عظیم مستقبل تعمیر ہو رہا ہے۔‘
پھر محمد علی جناح کی باری آئی انھوں نے انگریزی میں تقریر کی اور پاکستان زندہ باد کے نعرے کے ساتھ اپنی تقریر کا اختتام کیا۔ ان کی تقریر بعد میں ریڈیو کے اناؤنسر نے اردو میں پڑھی۔ ریڈیو کے ذریعے تقسیم کی رضامندی کا اعلان کیا جا رہا تھا۔
اگلے دن لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو پیغام ملا کہ مہاتما گاندھی کانگریسی لیڈروں سے تعلقات توڑ کر دعائیہ جلسہ کرنے والے ہیں اور جو لوگ ایک رات پہلے میٹنگ میں نہیں کہہ سکتے تھے، وہ آج کہیں گے۔
لاپیئر اور کولنز لکھتے ہیں کہ دعائیہ میٹنگ ہوئی، لیکن گاندھی نے کہا، ’وائسرائے کو تقسیم کے لیے مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اپنے آپ کو دیکھو، اپنے دماغ کو ٹٹولیں، پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ کیا ہوا؟‘
کیا اچانک آزادی کی تاریخ طے ہو گئی؟
اگلے دن لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور اپنے منصوبے کے بارے میں بتایا، جو ہندوستان کا جغرافیہ بدلنے والا تھا۔ ہر کوئی وائسرائے کی تقریر کو غور سے سن رہا تھا۔ اور سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔
پھر ایک سوال آیا جس کا جواب طے نہیں تھا۔ سوال یہ تھا کہ ’اگر سب اس بات پر متفق ہیں کہ اقتدار جلد از جلد سونپ دیا جائے، جناب، کیا آپ نے تاریخ کا بھی سوچا ہے؟‘
ڈومینک لاپیئر اور لیری کولنز ’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘ میں لکھتے ہیں، ’ماؤنٹ بیٹن نے اپنے دماغ کی دوڑ شروع کردی، کیونکہ اس نے کوئی تاریخ طے نہیں کی تھی۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ یہ کام جلد از جلد ہو جانا چاہیے۔ ہر کوئی اس تاریخ کو سننے کا انتظار کر رہا تھا۔ ہال میں خاموشی چھا گئی۔
لاپیئر اور کولنز نے لکھا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بعد میں اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’میں ثابت کرنے کے لیے پرعزم تھا کہ سب کچھ میرا ہے۔‘
اچانک ماؤنٹ بیٹن نے اس وقت پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے اقتدار سونپنے کی تاریخ طے کر دی ہے۔ یہ کہہ کر اس کے ذہن میں کئی تاریخیں گھومنے لگیں۔
لیپیئر اور کولنز لکھتے ہیں، ’ماؤنٹ بیٹن کی آواز اچانک گونجی اور انھوں نے اعلان کیا کہ 15 اگست 1947 کو اقتدار ہندوستانی ہاتھوں میں دے دیا جائے گا۔‘
اچانک ایک دھماکہ ہوا لندن سے ہندوستان تک آزادی کی تاریخ کا فیصلہ کیا گیا اور اپنی مرضی سے اعلان کیا گیا۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان میں برطانیہ کی تاریخ پر اس طرح پردہ ڈالیں گے۔
آخر کار 14 اور 15 اگست کی درمیانی رات کو ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان ایک نئے ملک کے طور پر معرض وجود میں آیا۔ اب دونوں ملک آزاد تھے لیکن ایک نہیں۔ (تاریخ پاکستان سے انتخاب )