کہتے ہیں کہ اردو زبان کی پیدائش میں عربی، فارسی اور ترکی زبانوں کا اہم حصہ ہے۔ اُن دنوں جب حملہ آور ہندوستان میں آتے تھے تو اُن کے لشکروں میں عربی، فارسی اور ترکی زبان بولنے والے سپاہی شامل ہوتے تھے۔ اُن کے میل جول نے ایک نئی زبان کو جنم دیا تاکہ مختلف نسلوں کے لوگوں کا آپس میں ابلاغ آسان ہو سکے۔ یہ عمل خودبخود فطری انداز سے چلتا رہا اور نئی زبان یعنی اردو کی شکل آہستہ آہستہ واضح ہوتی گئی۔ اردو زبان کو لشکریوں کی زبان بھی کہتے ہیں لیکن اُن حملہ آور لشکروں کے سربراہ عموماً فارسی بولتے تھے جس کے باعث لمبے عرصے تک ہندوستان کے حکمرانوں کی زبان فارسی ہی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے حالات بدلے اور حکمران بھی بدل گئے۔ پھر انگریز کا دور آیا۔ انگریزوں کو اپنے فتح کئے جانے والے ملک میں عام لوگوں کے ساتھ کام کاج چلانے کے لیے کسی نہ کسی زبان کی ضرورت تھی۔ چونکہ انگریزوں نے اقتدار ایسے افراد سے چھینا تھا جو فارسی بولتے تھے لہٰذا فاتحین کی فطرت کے مطابق انگریز شکست خوردہ ہندوستانی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اُن کی زبان فارسی کو بھی شکست دینا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ہندوستان میں سرکاری کام کاج چلانے کے لیے فارسی کو سرے سے ہی رد کردیا لیکن دوسری طرف ہندوستان کے باشندوں کو اپنے نئے حکمرانوں کی زبان انگریزی نہیں آتی تھی۔ ہندوستان میں ہندومت کی زبان سنسکرت مشکل ہونے کے باعث پورے ہندوستان میں بولی جاتی تھی نہ ہی سمجھی جاتی تھی اس لیے انگریزوں کو خالص ہندی زبان سے بھی زیادہ فائدے کی توقع نہ تھی۔ دوسری طرف انگریزوں کی آمد تک اردو زبان اپنی شناخت قائم کرچکی تھی جو ہندوستان کی تقریباً تمام بڑی زبانوں کے ساتھ تعلق داری رکھتی تھی۔ سادہ اور تمام علاقوں میں کسی حد تک سمجھی جانے والی زبان کے باعث انگریزوں نے اردو زبان کو اپنے استعمال میں رکھا اور کسی حد تک ترقی بھی دی۔ مثلاً بلوچستان میں انگریزوں نے اردو زبان کو بہت سہارا دیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی بلوچستان کے خان آف قلات کی اسمبلی میں سرکاری زبان اردو تھی۔ اسی طرح کشمیر میں بھی انگریزوں کا بہت آنا جانا تھا، وہاں بھی اردو بہت پروان چڑھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انگریزوں کو اردو زبان سے محبت تھی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ انگریز بہت ہی سمجھدار اور سائنٹفک حکمران تھے۔ اُن کے خیال میں اردو زبان کو ترقی دینے سے دو بڑے فائدے ملتے۔ ایک تو یہ کہ یہاں کے سابق حکمرانوں کی نشانی فارسی زبان سے چھٹکارا، دوسرا ہندوستان کی عام آبادی سے رابطے میں آسانی کیونکہ مقامی آبادی انگریزی بول چال سے ناواقف تھی۔ ہندوستان میں ایک نیا دور اُس وقت آیا جب انگریز چلے گئے اور ہندوستان اور پاکستان دو علیحدہ علیحدہ ملک بن گئے۔ انگریزوں کے تقریباً سوبرس کے اقتدار میں انہیں اتنی کامیابی تو ضرور ہوئی کہ انہوں نے فارسی زبان کو دیس نکالا دے دیا۔ پاکستان بننے کے بعد اردو زبان کو قومی زبان بنانے کی بات کی گئی جس کے تین نتیجے سامنے آئے۔ پہلا یہ کہ کچھ حصوں میں اِسے قبول ہی نہیں کیا گیا اور اندر ہی اندر مزاحمت پکنے لگی۔ دوسرا یہ کہ اِسے کچھ حصوں میں قبول کرلیا گیا مگر اپنی اپنی مادری زبان کو نہیں چھوڑا گیا جن میں سندھ، سرحد اور بلوچستان کے علاقے شامل تھے۔ تیسرا یہ کہ اِسے کچھ حصوں میں دل و جان سے قبول کیا گیا اور اپنا سب کچھ بھول کر اِسے اپنا لیا گیا جس میں سب سے پہلے پنجاب ہے پھر کراچی اور حیدرآباد۔ پاکستان میں اردو کے لیے سب سے زیادہ قربان ہو جانے والا علاقہ پنجاب ہی ہے جہاں کے مکینوں نے اپنی مادری زبان کو اپنی اگلی نسل تک نہیں پہنچایا اور اب صورتحال یہ ہے کہ جب دو سندھی ملتے ہیں تو سندھی بولتے ہیں، دو پٹھان ملتے ہیں تو پشتو بولتے ہیں، دو بلوچ ملتے ہیں تو بلوچی بولتے ہیں لیکن دو پنجابی ملتے ہیں تو اردو بولتے ہیں۔ پاکستان میں اردو رابطے کی بولی کا کام کررہی ہے۔ زبان کی بجائے بولی اس لیے لکھا کہ اردو لکھنے اور پڑھنے والے کم ہو رہے ہیں جبکہ نوجوان نسل اردو کو صرف سننے اور بولنے کی حد تک ہی اپنا رہی ہے۔ اردو کو نوجوان نسل سے اُس وقت مزید دور کردیا جاتا ہے جب کوئی مترجم کسی دوسری زبان کی تحریر کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ترجمے کے لیے صرف فارسی الفاظ کو ہی تلاش کیا جاتا ہے اور اِس کی دلیل میں کہا جاتا ہے کہ اردو زبان کی بنیاد فارسی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو زبان کی بنیاد عربی اور ترکی زبانیں بھی تھیں تو اُن میں سے ترجمے کے لیے الفاظ تلاش کیوں نہیں کئے جاتے؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ترکی زبان کو بولنے اور سمجھنے کا رواج ہی نہیں ہے جبکہ عربی زبان سے بھی ہمارا تعلق صرف مذہبی کتابوں تک ہی رہ گیا ہے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ فارسی زبان بھی ہمارے ملک کے کسی طبقے کی زبان نہیں ہے تو پھر ترجمہ کرتے ہوئے صرف فارسی کے الفاظ کا ہی چناؤ کیوں کیا جاتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میں ہونے والا ترجمہ عام لوگوں کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے اور تمسخر کا نشانہ بنتا ہے لیکن ہم نے ابھی تک اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے فارسی کی ضد نہیں چھوڑی۔ اگر ہمارے ترجمہ کرنے والے فارسی زبان کی بجائے پاکستان کی اپنی زبانوں یعنی پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، کشمیری، سرائیکی، شینا، بلتی، براہوی اور دیگر زبانوں سے الفاظ تلاش کریں تو وہ الفاظ ہمارے مقامی لوگوں کے لیے جانے پہچانے بھی ہوں گے اور قابل قبول بھی۔ فارسی کی حمایت کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہمارا تہذیبی، علمی و ادبی ورثہ فارسی میں ہے مگر یہ لوگ سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی وغیرہ کے ہزاروں برس پرانے قیمتی تہذیبی، علمی و ادبی ورثے کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ فارسی برصغیر میں حملہ آوروں کی زبان تھی، انہی کی تہذیب اور انہی کا ادب تھا۔ ہماری تہذیب اور ادب ہمارے اپنے علاقوں میں گم کردیا گیا ہے جن میں سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخوا، کشمیر، گلگت بلتستان اور سرائیکی وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔ تہذیب اور کلچر ہمیشہ اُسی علاقے کا ہوتا ہے جس کی مٹی سے وہ افراد جنم لیتے ہیں۔ پاکستان میں نئی نسل کے اندر فارسی زبان میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر فارسی پڑھنے والے طلباء تقریباً ختم ہوگئے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فارسی پاکستان کی نئی نسل کی زبان نہیں ہے۔ اگر اردو میں دیگر پاکستانی زبانوں کے الفاظ شامل ہونے لگیں تو اِس میں نئی نسل سمیت سب کے لیے اپنائیت کا احساس ہوگا۔ اب ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ اردو کے لیے فارسی اہم ہے یا سندھی، بلوچی، پنجابی، پشتو، کشمیری، شینا، بلتی اور سرائیکی وغیرہ؟ ورنہ فیصلہ وقت کو کرنا پڑے گا۔