پشاور سکول حملے کے متاثرین کا پیرس کے ساتھ اظہار یکجہتی


image

پاکستان کے سب سے جان لیوا دہشتگرد حملے میں بچنے والوں نے پیرس حملوں کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس کے ذمے داروں کو ” درندے” قرار دیا ہے جو ” اسلام کے لیے کچھ نہیں کررہے“۔

جمعے کی شب فرانس کو اپنی تاریخ کے سب سے بدترین دہشتگرد حملے کا سامنا پیرس میں ہوا جہاں ریسٹورنٹس، اسپورٹس اسٹیڈیم اور دیگر مقامات پر فائرنگ اور خودکش حملوں میں 129 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے بیشتر نوجوان تھے۔

پشاور میں دہشتگردوں کا نشانہ بننے والے آرمی پبلک اسکول میں بچ جانے والے افراد کا ماہانہ اجتماع پیر کو ہوا، جس میں واقعے میں انتقال کرجانے والے ایک طالبعلم کے والد سید شاہ نے کہا کہ جب انہوں نے پیرس کی خبر مقامی ٹی وی پر دیکھی ” تو ہمارا پورا گھرانہ گھنٹوں تک روتا رہا”۔

ان کا کہنا تھا ” وہ واقعہ ہمیں ماضی میں لے گیا، ہم فرانس کے درد کو کسی اور کے مقابلے میں زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہم اسے واقف ہیں”۔

ایک اور طالبعلم نے غصے میں چلاتے ہوئے اپنے دوستوں کو ہلاک کرنے والے ” درندوں” کے خلاف بات کی اور کہا ” وہ اسلام کے لیے کچھ نہیں کررہے”، اس جذبے کا اظہار اجتماع میں موجود والدین نے پیرس حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے بار بار کیا۔

پیرس میں ہونے والے حملے میں فرانس سے یکجہتی کا اظہار پورے پاکستان میں نظر آتا ہے جو رواں سال جنوری میں فرانس کے میگزین چارلی ہیبدو پر ہونے والے حملے کے بعد نظر نہیں آیا تھا جس کی وجہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کرنا تھا۔

تاہم جمعے سے اب تک مذہبی اور سیاسی رہنماﺅں کے بیانات، حکومت کی جانب اور سوشل نیٹ ورکس میں پیرس دہشتگرد حملوں کی مذمت کی گئی۔

پشاور کے طالبعلم اعظم محمود نے کہا کہ اسے ” یہ یقین کرنا مشکل ہوا” کہ اس طرح کا حملہ پیرس کے دل میں ہوا جو دنیا کا ایسا شہر جس کے بارے میں متعدد پاکستانی سوچتے ہیں کہ وہ ” بہت زیادہ ترقی یافتہ، پرامن اور محفوظ ملک کا دارالحکومت ہے”۔

دیگر نے کہا کہ طالبان کی جانب سے پشاور میں اے پی ایس حملے کے دوران سامنے آنے والی کہانیاں پیرس کے متاثرین کے بیانات کی عکاسی کرتی ہیں۔

کیمسٹری ٹیچر عندلیب آفتاب کا سولہ سالہ بیٹا اس حملے میں ہلاک ہوا۔ انہوں نے اشک بھری آنکھوں سے پیر کے اجتماع میں کہا ” وہ فرانس کو بتانا چاہتی ہیں کہ وہ تنہا نہیں”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں