بجلی کارخانوں کے مالکانہ حقوق عوام کو دو ۔۔۔ تحریر: سید سردار احمد پیرزادہ

مفلسی کے ساتھ ساتھ اگر بدنیتی اور مفادپرستی بھی شامل ہو جائے تو ایسی بدترین بدبو پھیلتی ہے کہ شیطان بھی اپنی ناک پر کپڑا رکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کی مکمل مثال ہمارے ہاں بجلی کے بلوں کی صورت میں سامنے آچکی ہے۔ آئیے اس کی تشریح کرتے ہیں۔ پاکستان ایک غریب ترین ملک ہے۔ اس کی عوام کے کئی افراد مفلسی کے ہاتھوں اپنے بچوں کو قتل کرکے خودکشی کرچکے ہیں یا پیٹ پالنے کے لیے اپنے بچوں کو فروخت کرتے ہوئے جیل جاچکے ہیں۔ اتنے غریب اور پسماندہ ملک کے حکمرانوں کی چالبازیوں نے اُس وقت ابلیس کو بھی شرمندہ کردیا جب انہوں نے غیرملکی دباؤ میں آکر بجلی کمپنیوں سے ایسے معاہدے کیے جو نہ صرف مہنگے تھے بلکہ دنیا کی کسی معیشت کے فارمولے کے تحت کاروباری معاہدے بھی نہیں تھے۔ 1996ء میں شروع ہونے والے بجلی کمپنیوں سے یہ معاہدے ایسے ہی تھے جیسے کوئی دوسروں کو اپنے ہاتھ سے خود پیسے دے کہ پہلے وہ اس کے کپڑے اتارے اور پھر اسے جوتیاں لگائے اور ہرجوتی لگانے پر مزید پیسے وصول کرے۔ ان معاہدوں کا نام آئی پی پیز رکھا گیا یعنی انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز۔ یہ نام بالکل درست رکھا گیا کہ اتنی آزادی سے پاور پیدا کی جائے کہ ملک کی آئندہ کئی نسلیں زندہ رہنے کے لیے کوؤں اور کیڑوں کے ساتھ کوڑے کرکٹ میں اپنی خوراک تلاش کرتے کرتے مرجائیں۔ آئی پی پیز سے ان معاہدوں کے صرف چند نکات ملاحظہ کیجئے۔ اکنامکس کا یہ ایک بنیادی اور عام فہم اصول ہے کہ آپ جتنی چیز خریدتے ہیں صرف اسی چیز کے ہی پیسے دیتے ہیں۔ نہ کہ یہ کہ جس فیکٹری میں یہ چیز بنی ہے اس کی مکمل کیپسٹی کے پیسے گاہک سے وصول کیے جائیں۔ مثلاً اگر ایک بیکری کے کارخانے میں ایک ہزار ڈبل روٹیاں بنانے کی گنجائش ہے لیکن اس کو صرف دوسو ڈبل روٹی کا آرڈر ملا ہے تو وہ کارخانے دار صرف دوسو ڈبل روٹیاں ہی بنائے گا اور انہیں فروخت کرکے ان کی قیمت وصول کرے گا۔ نہ کہ یہ کہ وہ باقی آٹھ سو ڈبل روٹیاں جوکہ اس نے بنائی ہی نہیں ان کی قیمت بھی سزا کے طور پر دوسو ڈبل روٹیوں کے خریداروں سے وصول کرے۔ آئی پی پیز کے معاہدوں میں اکنامکس کے اس عام فہم اور سادہ سے اصول کو الٹا کردیا گیا۔ وجہ یہی تھی کہ مفلس ملک کے حکمرانوں کی مفادپرستی ناقابل پیمائش تھی۔ آئی پی پیز کے معاہدوں میں یہ بات طے کی گئی کہ بجلی کا کارخانہ جتنی کیپسٹی رکھتا ہے اگر اس سے کم بجلی حکومت خریدے گی تو کیپسٹی کی گنجائش کی باقی بجلی کے برابر حکومت پیسے ادا کرے گی۔ خواہ وہ بجلی کارخانے نے بنائی ہی نہ ہو۔ مثلاً ایک بجلی کارخانہ ایک ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی گنجائش رکھتا ہے لیکن حکومت اس سے صرف دوسو میگاواٹ خریدتی ہے تو باقی آٹھ سو میگاواٹ بجلی جوکہ کارخانے دار نے بنائی ہی نہیں اس کے پیسے بھی حکومت کو لازمی ادا کرنے پڑیں گے۔ اب یقینا حکومت ان آٹھ سو میگاواٹ بجلی کے پیسے جو نہ کارخانے دار نے بنائی نہ حکومت نے خریدی اور نہ ہی عوام نے استعمال کی کے اخراجات عوام پر ڈالے گی اور دوسومیگاواٹ استعمال کرنے والے عوام ایک ہزار میگاواٹ بجلی کے بل ادا کریں گے۔ اسی لیے صارفین ایک یونٹ بجلی کے عوض درجنوں رنگ برنگے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت ایک کارخانہ دار سے اس کی پوری کیپسٹی کی بجلی کیوں نہیں خریدتی؟ اس کی اندرونی کہانی یہ ہے کہ 1996ء سے لے کر اب تک کی حکومتوں نے اپنے ہاں کئی غیرملکی فرموں کو بجلی کے کارخانے لگانے کے پرمٹ دے دیئے جس کے باعث پاکستان کی بجلی ڈسٹری بیوشن کیپسٹی سے بہت زیادہ کارخانے لگ گئے جن کی مجموعی کیپسٹی پاکستان کی ڈسٹری بیوشن کیپسٹی سے کہیں زیادہ تھی۔ اس کا پہلا نقصان تو یہی ہوا کہ ملک کے اندر کے بجلی بنانے والے کارخانے پیچھے رہ گئے اور غیرملکی کارخانوں نے آکر ملکی کارخانوں کا حق بھی چھین لیا۔ بجلی بنانے کا اعلان ایک سیاسی نعرہ اور سیاسی فائدہ بن گیا جبکہ اس کی ڈسٹری بیوشن یعنی تقسیم کاری چونکہ ایک محنت طلب کام تھا جس کا ظاہری سیاسی فائدہ نہیں تھا اس لیے اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک میں اس وقت بجلی کی پیداواری گنجائش 43ہزار میگاواٹ اور ٹرانسمیشن کی صلاحیت 23ہزار میگاواٹ ہے۔ یعنی کتنی ظالمانہ بات ہے کہ آپ کے پاس پانی کے بہت بڑے ذخیرے کی گنجائش موجود ہو، اس پانی کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے 43ہزار لائنوں کی ضرورت ہو اور آپ کے پاس صرف 23ہزار لائنیں موجود ہوں یعنی 20ہزار لائنیں سرے سے موجود ہی نہ ہوں جبکہ آپ دستیاب نہ ہونے اور استعمال نہ ہونے والے پانی کے پیسے بھی ادا کرنے کے پابند ہوں۔ یہی معاملہ حکومت پاکستان کا آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں بھی موجود ہے۔ اب ایک اور ہوشربا انکشاف تحریر ہے کہ مہنگائی امریکہ میں ہوگی اور بجلی کی قیمت پاکستان میں بڑھے گی کیونکہ آئی پی پیز امریکی مہنگائی کی قیمت پاکستانیوں سے وصول کرتی ہیں۔ آئی پی پیز کے حکومت پاکستان سے بجلی معاہدوں میں امریکی انفلیشن انڈیکس کو منسلک کیا گیا ہے یعنی امریکی ڈالر کی قدر گرنے پر بھی پاکستان میں بجلی کا ٹیرف بڑھے گا اور امریکی مہنگائی کے ساتھ مقامی ملکی مہنگائی کا اثر بھی بجلی کے کیپسٹی چارجز میں شامل ہوگا جو عوام کو ہی ادا کرنے ہوں گے۔ بجلی کے ٹیرف میں 12 سے 20 فیصد تک ٹیکس جبکہ 70 فیصد کیپسٹی چارجز شامل ہیں۔ ملک میں شرح سود بڑھنے سے گزشتہ 4سال کے دوران بجلی کے یونٹ میں سودی ادائیگی 343فیصد بڑھ گئی ہے۔ اب راقم کا ایک ہوشربا تجزیہ بھی ملاحظہ ہوکہ مفلس ملک کے نئے پرانے حکمران کسی نہ کسی طرح حکومت میں آتو جاتے ہیں لیکن جب آئی پی پیز کے خلاف عوام کے غصے کی آگ ان تک پہنچنے لگتی ہے تو وہ ہمدرد بن کر آئی پی پیز کے معاہدوں کو نرم کرنے یا ختم کرنے کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ بس یہی وقت ہوتا ہے جب اُس حکومت کے جانے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں اور 1996ء سے اب تک یہی ہوتا آیا ہے کہ جس حکومت نے بھی آئی پی پیز کے خلاف سوچنا بھی شروع کیا اس کی حکومت چلی گئی۔ ان جانے والی حکومتوں میں پیپلز پارٹی، ن لیگ، پی ٹی آئی اور مشرف دور کے وزرائے اعظم وغیرہ کی سب حکومتیں شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں جونہی شہباز شریف حکومت کے وزراء نے آئی پی پیز معاہدوں کو ختم کرنے کی باتیں شروع کیں تو ایک بین الاقوامی ایجنسی کی پیشین گوئی سامنے آگئی کہ شہباز شریف کی حکومت صرف ڈیڑھ سال ہی پورا کرپائے گی۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ آئی پی پیز کے خلاف بات کرکے حکومتوں کے جانے اور دوبارہ واپس آنے کا معاملہ کب تک بلی چوہے کا کھیل بنا رہے گا؟ اگر پاکستان کے حکمران اور مخلص سیاسی جماعتیں عوام کو بجلی کے کارخانوں کے مالکانہ حقوق دے دیں تو حکومتوں کے گلے میں پڑے ہوئے آئی پی پیز کے یہ طوق اتر سکتے ہیں۔ بیشک یہ آئیڈیا ناممکن یا بہت مشکل لگتا ہے لیکن دنیا کی تاریخ میں عوام کی بھلائی کے لیے برپا ہونے والے بہت سے انقلابات جو ناممکن تھے ممکن ہوگئے۔ یہاں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ بجلی کارخانوں کو نیشنلائزڈ یعنی قومیایہ جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سٹاک ایکسچینج کے شیئرز کے ذریعے ان کے سوفیصد مالکانہ حقوق صرف پاکستانی عوام کو دیئے جائیں یا ایسا ہی کوئی نیا فارمولا بنایا جائے جس کے تحت پاکستان کے بجلی کے کارخانوں کے مالک حکومت یا تاجروں کی بجائے مکمل طور پر عوام ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں