پاکستان کا موجودہ معاشی نظام شہریوں کے جسم سے خون اور ہڈیوں سے گودا تک نچوڑ چکا ہے۔ حکومت کے اندرون و بیرون ملک حاصل کردہ قرضوں کی واپسی اور بین الاقوامی مالی اداروں کی قرض ادائیگی کے لیے جان لیوا شرائط وغیرہ جیسے معاملات کو پورا کرنے کے لیے سود کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہی سہارا دراصل ہمارے معاشی نظام کو مکمل طور پر زہرآلود کرچکا ہے اور اس سے نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ مکمل اندھیرے کے اس ماحول میں سود سے پوری طرح خلاصی کے لیے ایک نئی تجویز سامنے آئی۔ قانت خلیل اللہ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور معاشی معاملات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہ اہم اداروں میں اہم عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ ملک کے شہریوں کو ٹیکس اور سود کے ہاتھوں بدترین زندگی گزارنے سے بچانے کے لیے انہوں نے جدید خطوط پر معاشی نظام کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ پیش کیا ہے۔ قانت خلیل اللہ نے ا س حوالے سے دوسرے ملکوں کے معاشی نظاموں کا بہت گہرا مطالعہ کیا اور بہت زیادہ ریسرچ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستان کے معاشی نظام کو سود سے علیحدہ کرنا ناممکن نہیں ہے۔ قانت خلیل اللہ کے مطابق ”جدید بینکنگ نظام میں دو قسم کی کرنسی یا پیسے ہوتے ہیں۔ بینک نوٹ جو مرکزی بینک جاری کرتا ہے اور بینک ڈپازٹ جو کمرشل بینکوں کے قرضے ہوتے ہیں۔ عمومی نقطہ نظر سے بینک ڈپازٹس نقد رقم رکھنے کے برابر ہیں۔ بینک جب قرضے جاری کرتے ہیں تو نئے روپے تخلیق کرتے ہیں کیونکہ اسی وقت بینک اکاؤنٹس میں نمبر (بینک ڈپازٹس) ظاہر ہوتے ہیں۔ بینک آف انگلینڈ کے الفاظ میں جب ایک بینک قرض دیتا ہے اسی لمحے نیا پیسہ تخلیق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو گھر خریدنے کے لیے قرض دینے والے کو بینک ہزاروں پاؤنڈ مالیت کے نوٹ نہیں دیتا۔ اس کے بجائے وہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں قرض کے برابر بینک ڈپازٹ کریڈٹ کرتا ہے (بینک آف انگلینڈ سہ ماہی بلیٹن Q1 2014)۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے تجارتی بینکس زیادہ قرضے جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فریکشنل ریزرو سسٹم کے تحت صرف 5-6 فیصد مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی کے ساتھ بینک قرضے جاری کرسکتے ہیں اور تقریباً 20گنا تک بینک ڈپازٹ میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ تاہم ان کے پیسے کی توسیع سے ہونے والی افراط زر یا مہنگائی کو مرکزی بینک بلند شرح سود کی پالیسی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قرض لینے کی سرگرمی کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔ تاہم جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، پاکستان میں بلند شرح سود پالیسی مؤثر نہیں ہے کیونکہ تجارتی بینکوں کی سب سے بڑی قرض دار حکومت پاکستان خود ہی ہے جو قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیسے کی تخلیق کے قانونی اختیارات کے باوجود پاکستان کی ریاست نجی بینکوں سے بڑے پیمانے پہ اور قرضے لے رہی ہے تاکہ پرانے قرضوں پر سود ادا کرسکے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ حکومت سود کی ادائیگی کے لیے قرض لیتی ہے جس سے حکومت کا قرض بڑھتا ہے اور سود کی ادائیگی کے نتیجے میں بینک ڈپازٹس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم پیسے کی فراہمی میں اضافے کی وجہ سے افراط زر کا سامنا کررہے ہیں اور ہمارے بچوں پر حکومتی قرض کا بوجھ مسلسل بڑھتا چلا جائے گا۔ پاکستان کے سنگین معاشی مسائل کا حل مکمل ریزرو بینکنگ کا نفاذ ہے۔ اس نظام کی تائید 20ویں صدی کے بڑے ماہرین معاشیات جن میں ملٹن فریڈمین اور فشر نمایاں ہیں نے کی ہے اور اس کے نفاذ کو نہایت ہی قابل عمل اور آسان بتایا ہے۔ یہ منظم مالیاتی نظام بھاری سرکاری قرضوں کے بوجھ اور ان پر سود کے اخراجات کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے، افراط زر کو کنٹرول کرنے اور اقتصادی خوشحالی کو فروغ دینے کے مقاصد کو حاصل کرسکتا ہے۔ فریکشنل ریزرو سسٹم جو پیسے کی فراہمی میں اتار چڑھاؤ اور اقتصادی عدم استحکام کا ذمہ دار ہے اس کو مکمل ریزرو سسٹم سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ نیا تجویز کردہ نظام درج ذیل بنیادی اصولوں پر کام کرے گا۔ (1تجارتی بینکس قرض جاری کرنے اور انویسٹمنٹ کرنے کے عمل میں نیا پیسہ/ کرنسی تخلیق نہیں کرسکیں گے۔ (2پیسہ تخلیق کرنے کی صلاحیت ایک خودمختار ادارے جیسے سٹیٹ بینک کو منتقل کی جائے گی جو جی ڈی پی میں اضافے کے برابر نیا پیسہ تخلیق کرے گا تاکہ مہنگائی یا افراط زر نہ ہو۔ (3نیاتخلیق کردہ پیسہ غریب طبقے کی بنیادی ضروریات اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جائے گا تاکہ اشیاء کی طلب کے ساتھ سپلائی میں بھی مؤثر اضافہ ہو۔ سوفیصد ریزرو سسٹم میں بینکوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے تمام ڈپازٹس کے لیے 5فیصد کی جگہ 100فیصد تک مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی رکھیں۔ نتیجتاً بینک کے قرضوں سے نیا پیسہ تخلیق کرنے کا عمل بند ہو جائے گا۔ اس کے بجائے بینکوں کو قرضے جاری کرنے کے لیے پہلے سرمایہ حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس سے پیسے کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ کو روکا جاسکے گا۔ مزید یہ کہ بینکوں کو مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی کو حاصل کرنے کے لیے حکومتی بانڈز اور ٹریژری بلز سٹیٹ بینک کے حوالے کرنا ہوں گے اور کیونکہ 100فیصد ریزرو کرنسی کی مقدار بینکوں کے پاس تقریباً 60فیصد حکومتی بانڈز سے زیادہ ہے اس لیے اس سے بینکوں کے علاوہ دوسرے اداروں اور لوگوں کے ہاتھوں میں حکومتی بانڈز اور قرضہ بھی ادا کردیئے جائیں گے اور اس طرح پاکستان کا پورا داخلی قرض ختم ہوسکے گا۔ یہ نیا نظام اسلام کے مقاصد اور مالیاتی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ نظام کے مقابلے میں جہاں 90فیصد سے زیادہ کرنسی تجارتی بینکس قرض دیتے وقت تخلیق کررہے ہیں اور کرنسی اور قرض ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اس نئے نظام میں پیسہ قرض کے بغیر تخلیق کیا جائے گا اور یہ حقیقی اشیاء کی پیداوار کے تناسب سے ہوگا۔ مزید یہ کہ موجودہ بینکنگ سسٹم کے برعکس ڈپازٹ ہولڈرز کو انویسٹمنٹ اور نفع نقصان میں شرکت کے بغیر کوئی منافع نہیں ملے گا۔ ان کو اپنی رقم بینکوں کو ٹرانسفر کرنا ہوگی جو اس رقم کو مختلف کاروباری اداروں میں انویسٹ کرکے منافع کمائیں گے اور تقسیم کریں گے۔ روپے کی قدر اس نظام میں مستحکم رہے گی کیونکہ تجارتی بینک قرض کے ساتھ روپے کی سپلائی نہیں بڑھا رہے ہوں گے۔ اس نئے نظام میں حکومت کا 6ہزار ارب کا سودی خرچ ختم ہو جائے گا اور اس کے پاس ٹیکس کے علاوہ تقریباً 2ہزار ارب کی نئی تخلیق کردہ کرنسی ہوگی۔ اس لیے حکومت کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے بینکوں سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی جس سے افراط زر کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی ختم ہو جائے گی۔ حکومت اپنی مالیاتی پالیسیوں کو مؤثر طریقے سے نافذ کرسکے گی اور سود کی ادائیگی کے لیے رکھی گئی رقم سماجی اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں استعمال ہو سکے گی۔ مجموعی طور پر 100فیصد ریزرو بینکنگ ایک جدید اور پائیدار حل پیش کرتی ہے جو پاکستان کے سنگین اقتصادی مسائل کو حل کرسکتی ہے، مالیاتی استحکام کو یقینی بنا سکتی ہے اور پاکستان اور اس کے عوام کے لیے ایک خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھ سکتی ہے“۔ حکومت عموماً پالیسیاں بناتے ہوئے نئی تجاویز کا خیرمقدم کرتی ہے اور ماہرین کی کمیٹیاں بھی بناتی ہے۔ سودی نظام کے خاتمے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور وزیرخزانہ محمد اورنگزیب مندرجہ بالا تجویز کے خالق قانت خلیل اللہ کو بھی اگر چند منٹ کی ملاقات کا وقت دے دیں تو کیا حرج ہے؟