ملک میں مستقل بنیادوں پر اَمن برقرار رکھنے کے لیے آپریشن عزمِ استحکام کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی منظوری قانون کے مطابق ایپکس کمیٹی نے دی۔ وزیراعظم کی زیرصدارت ایپکس کمیٹی کے اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ممبران میں اہم وفاقی وزراء کے ہمراہ چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ سمیت سروسز چیفس اور صوبوں کے چیف سیکرٹریز بھی شریک تھے۔ اس کے بعد وفاقی کابینہ نے بھی اسے منظور کرلیا۔ آپریشن عزمِ استحکام کی خبر جب عام ہوئی تو بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس کی مخالفت شروع کردی گئی۔ ان سیاسی جماعتوں میں فی الحال پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، اے این پی، جے یو آئی ف اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی شامل ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں نے آپریشن عزمِ استحکام کی مخالفت کیوں شروع کی اس کا جائزہ ذرا بعد میں لیتے ہیں، پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ مخالفت کرنے والی مندرجہ بالا سیاسی جماعتوں میں کیا چیز قدرِ مشترک ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ پی ٹی آئی نے دہشت گردوں کو درپردہ اپنا اثاثہ مانا ہوا تھا یعنی اُن دہشت گردوں کو پی ٹی آئی کا ملیٹنٹ وِنگ کہا جاسکتا ہے۔ اسی لیے عمران خان کو عرفِ عام میں طالبان خان کے نام سے مشہور ہونا پڑا۔ اس کے بعد دیکھا جائے تو جماعت اسلامی ایسی تنظیموں کی حمایتی رہی ہے جو 80ء کی دہائی میں ملک میں دہشت گردی کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔ جے یو آئی ف کا تعلق دہشت گردوں کی حمایت سے زیادہ اُن علاقوں جہاں آپریشن عزمِ استحکام کا امکان ہے میں عوامی سطح پر سیاسی تعصب کے جذبات ابھار کر ملکی سیاست میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔ اے این پی پختونوں کی وہ جماعت ہے جس کے متعلق ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی پختون ہے تو وہ پہلے اے این پی کا ووٹر ہے اس کے بعد کچھ اور ہے لیکن اے این پی نے رفتہ رفتہ اپنے تاج کا یہ کوہِ نور کھو دیا۔ پہلے ایم ایم اے نے اُن کے سیاسی کھیتوں میں ہل چلاکر ہرچیز برابر کردی، پھر رہی سہی کسر پی ٹی آئی نے پوری کردی اور گزشتہ تین عام انتخابات میں اے این پی کو اپنی انتخابی ضمانتیں بچانا مشکل ہوگئیں۔ رہا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا معاملہ تو یہ پارٹی بھی ماضی کے عام انتخابات کی طرح 2024ء کے عام انتخابات میں بھی نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ اب ان پانچوں جماعتوں میں بڑی دلچسپ متضاد بات بھی موجود ہے۔ وہ یہ کہ اے این پی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی مذہبی نظریاتی جماعتیں نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو سیکولر جماعتیں کہلانا پسند کرتی ہیں جبکہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف مذہبی نظریاتی جماعتیں ہیں اور اپنے آپ کو غیرسیکولر جماعتیں کہلواتی ہیں۔ توپھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتیں آپریشن عزمِ استحکام کی مخالفت کے نکتے پر متفق کیوں ہیں؟ اس کی سامنے کی وجہ تو یہی ہے کہ عام انتخابات میں بدترین شکست کے بعد کھسیانی بلی کھمبا نوچے والا معاملہ ہے لیکن درحقیقت یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملک میں مذہبی انتہاپسندی کے جذبات ابھارنے سے غیرملکی مفادات کو فائدہ پہنچتا ہے اور اسی طرح صوبائی تعصب کے جذبات ابھارنے سے بھی غیرملکی مفادات کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ اب جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی اپنے انداز سے ملک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں جبکہ اے این پی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اپنے انداز سے یہ کام سرانجام دے رہی ہیں۔ باقی ان پانچ جماعتوں میں جہاں تک پی ٹی آئی کا معاملہ ہے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عمران خان ملک کے اندر سے اور ملک کے باہر سے جس طرح سازشوں کا سہارا لیتے ہیں وہ انہی کا کمال ہے۔ لہٰذا یہ پانچوں جماعتیں جوکہ نظریات اور ووٹ بینک کی کھینچا تانی کے ساتھ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں لیکن آپریشن عزمِ استحکام کی مخالفت کے نکتے پر ایک ہیں۔ گویا یہ سب اُن تمام غیرملکی مفادات کو فائدہ پہنچانے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں جو مذہبی تعصب یا صوبائی تعصب کے راستے ملک میں داخل کیا جاتا ہے۔ غیرملکی مفادات کا ایک بنیادی اور پہلا ایجنڈہ یہی ہے کہ پاکستان کی فوج کو بدنام کیا جائے۔ یہ پانچوں جماعتیں کیا یہی چلن اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں؟ ان پانچوں جماعتوں کے ماضی قریب کے حالات کو دیکھیں تو ان پانچوں کا ایک نکتے پر متفق ہو جانا منافقت کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ گزشتہ چار عام انتخابات کی مہم کے دوران اے این پی کے صف اول کے تمام رہنماؤں کو شہید کردیا گیا۔ اُس وقت یہی اے این پی اس کا ذمہ دار مذہبی انتہاپسند دہشت گردوں کو ٹھہراتی تھی۔ اب وہی اے این پی اُس آپریشن عزمِ استحکام کی مخالفت کررہی ہے جو انہی دہشت گردوں کے بچے کھچے افراد کو ختم کرنے کے لیے شروع کیا جارہا ہے۔ جے یو آئی ف کے رہنماؤں پر جب دہشت گردوں نے حملے کئے جن میں مولانا فضل الرحمان اور دیگر صف اول کے رہنما بال بال بچے، کچھ زخمی ہوئے یا کچھ شہید ہوئے تو اُس وقت یہی جے یو آئی ف اس کا ذمہ دار دہشت گردوں کو ٹھہراکر پاکستانی فوج کے آگے واویلا کرتی تھی کہ ان دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے لیکن اب یہی جے یو آئی ف آپریشن عزمِ استحکام کی مخالفت کررہی ہے جبکہ آپریشن عزمِ استحکام اُنہی دہشت گردوں کے خلاف ہے جن میں سے کچھ جے یو آئی ف پر حملوں کے ذمہ دار بھی ہو سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی تمام تر بنیاد ہی ایسے معاملات پر ہے جن سے غیرملکی مفادات کو فائدہ پہنچتا ہو۔ جب پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار کے دوران آئی ایم ایف کو دھوکا دیا اور امریکہ کو بھونڈے انداز سے ناراض کیا تو اُس سے ملکی معیشت اور سفارت کاری کو بہت نقصان ہوا۔ اب وہ امریکہ میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کررہی ہے تو اِس سے بھی ملک کو نقصان ہورہا ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی کا ہر ایکشن اور ہرعمل صرف ذاتی اقتدار کا حصول ہے۔ اس کے لیے خواہ ملکی مفادات کو نقصان اور غیرملکی مفادات کو فائدہ ہی کیوں نہ پہنچتا ہو۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے اس کی سیاسی حیثیت اب محض اتنی ہے جیسے کسی قدیم لائبریری کی بوسیدہ الماری میں کوئی دیمک زدہ گردآلود کتاب کی ہوتی ہے۔ لہٰذا جماعت اسلامی کو کوئی نہ کوئی ایسی جگہ چاہئے ہوتی ہے جہاں وہ ”گھس بیٹھئے“ بن کر میڈیا میں اپنا مقام پیدا کرسکیں۔ رہا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا معاملہ تو ان چاروں جماعتوں کو ایک ایسا چہرہ چاہئے تھا جسے وہ بیرونی دنیا میں مظلوم صوبوں کا جمہوری چہرہ بناکر پیش کرسکیں۔ اس مختصر تجزیئے کے بعد خود فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ آپریشن عزمِ استحکام کی مخالفت کرنے والی مندرجہ بالا پانچوں جماعتوں نے اس آپریشن کی مخالفت کیوں کی؟ یہ ملکی آئین کے ساتھ کتنی مخلص ہیں یا آپس میں کتنی مخلص ہیں یا اپنے ووٹروں کے ساتھ کتنی مخلص ہیں؟ یا یہ کہنا درست ہوگا کہ مندرجہ بالا پانچوں جماعتیں اپنے اپنے انداز میں غیرملکی مفادات کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایک نکتے پر متفق ہیں۔