اسلام کی ایک دوسری اور بنيادی اخلاقی تعلیم اپنے غصے پر قابو پانا اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف اور درگزر کرنا ہے۔ اور پھر یہ بات تو طے ہے کہ جب بندہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اسے ضرور رنج و غم تکلیف آزمائش سے گزرنا ہوگا یہ اس کی زندگی کا حصہّ ہے۔
کبھی اپنوں سے، کبھی غیروں سے، کبھی بڑوں سے، کبھی چھوٹوں سے، کبھی دوستوں سے، اور کبھی تو دشمنوں سے۔
اب انسان کے پاس دو ہی راستے ہیں کہ وہ بدلہ لے یا تو درگزر سے کام لیں۔ حتی کہ اسلام نے ہمیں اجازت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے آپ کے ساتھ کوئی ظلم زیادتی کی ہے تو اس کے ساتھ بھی وتنی زیادتی کرسکتے ہیں ، لیکن اگر وہ درگزر سے کام لے تو یہ بہتر ہے۔ اسلام نے زیادہ عفودگزر اور معاف کرنے کو ترجیح دی ہے۔۔
جیسے حضرت یوسف کو ان کے بھائیوں نے کنوؤيں میں ڈال دیا تھا، مگر جب انہیں اقتدار ملا تو وہ چاہتے تو وہ بدلہ لے سکتے تھے مگر انہوں نے درگزر سے کام لیا۔
( اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں )
اور جنت کے مستحق ہیں وه لوگ جو آسودگی اور تنگی میں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکوکارروں کو دوست رکھتا ہے۔۔۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر انسان کسی کو معاف ہی نہ کریں اور بدلہ ہی لے تو سوچنے والی بات ہے۔
. کیا کبھی وہ غلطی نہیں کرے گا؟؟
. کیا کبھی وہ تکلیف میں نہیں پھنس سکتا؟؟
انسان کبھی شعوری اور لاشعوری طور پر بھی غلطیاں کرسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف پہچتی ہے۔ تو اس لیے اگر انسان چھوٹی چھوٹی باتوں پر بدلہ لینے لگ گیا تو پھر یہ دنیا آگ کا شعلہ بن جائے گی جس میں ہر کوئی جل کر خاک ہوجائے گا۔ اسلئے درگزر کرنا چاہئے۔ اور اللہ بھی ایسے لوگوں کو پسند بھی کرتا ہے۔۔