ہمارے معاشرے میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان ۔۔۔ تحریر: ماریہ عبدالقھار

شادی ایک خوبصورت رشتہ ہے۔ مگر دیکھا جائے تو جس طرح یہ رشتہ مضبوط ہے اسی طرح بے حد نازک بھی ہے۔ جب دو لوگوں کی آپس میں نہ بن رہی ہو تو یہ ہلکی ہلکی ضربیں اس رشتے کو بے حد نقصان پہنچاتی ہیں۔
وجہ صرف یہی ہے اس خاص رشتے کو توجہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اک تشویش ناک صورت حال ہے۔ نکاح ہم اس لئے نہیں کرتے کہ اس کو طلاق کے ذریعے ختم کیا جائے۔
اللہ پاک کو طلاق بالکل بھی نہی پسند۔ مگر جب حالات ایسے پیدا ہوجائے کہ طلاق کے علاوہ باقی کوئی چارہ نہ رہے تو پھر یہ حق استعمال کیا جائے۔
پہلے پوری کوشش کی جائے کہ کوئی حل نکل سکے۔ بعض مرد حضرات اپنی بیوی کو اسلئیے بھی طلاق دیتے ہیں، کیونکہ انہے اپنی بیوی کے اندر گزرتے وقت کے ساتھ کوئی دلچسپی اور کشش نظر نہیں آتی۔
کبھی عورت معاشی تنگیوں کی وجہ سے طلاق حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اور کبھی مرد اپنی زمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔
شادی دو لوگوں کا ملاپ ہے۔ جس میں دکھ، سکھ سانجھے ہوتے ہیں۔ مرد اور خواتین دونوں کو لازمی شادی سے پہلے قرآن کی تعلیم اور مطالعہ کرنا چاہیے تاکے رہنمائی حاصل ہوسکے۔
اللہ پاک کے نزدیک حلال کاموں میں ناپسندیدہ کام طلاق ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے کئی خاندان تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔
موجودہ دور میں بدقسمتی سے مغربی تہذیب کے اثرات اور معاشرے کی اندھی تقلید کی وجہ سے ہمارے یہاں اس کی شرح بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔
لہٰذا کوشش کی جائے کہ قانونِ طلاق قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کرنے کی سعی کی جائے، تا کہ اس کا ناجائز استعمال کو روکا جاسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں