خواتین کا عالمی دن خواتین کی کامیابیوں کے اعتراف اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے عزم کے اظہار کے لیے ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس دن کی جڑیں 20ویں صدی کے اوائل کی امریکی سوشلسٹ اور مزدور تحریکوں میں پنہاں ہیں، خصوصا اس وقت جب خواتین کام کرنے کے لیے بہتر حالات اور ووٹ کے حق حاصل کے لیے لڑ رہی تھیں۔اس دن کو باقاعدہ منانے کی ابتدا 1911 میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں ہوئی جب دس لاکھ سے زیادہ افراد نے خواتین کے حقوق کی حمایت کے لیے ریلی نکالی۔ اس کے بعد سے، اس دن کو منانے کا سلسلہ نہ صرف آگے بڑھتا رہا بلکہ اس کے دائرہ کار میں بھی اضافہ ہوا ہے.
خواتین کے خلاف تشدد سے لے کر کام کی جگہ پر برابری تک تمام مسائل کو حقوق نسواں کے دائرہ کار میں شامل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ کسی ایک تنظیم کے پاس اس تقریب کی ملکیت نہیں ہے تاہم اقوام متحدہ میں1977 میں اس دن کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے بعد سے عالمی سطح پر اسے منانے کا رجحان بڑھا۔ دنیا بھر میں اس دن کی مناسبت سے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ کئی سالوں کے دوران، خواتین کا عالمی دن بہت سے ممالک میں عام تعطیل میں بدل گیا ہے اور کچھ میں صرف خواتین کے لیے چھٹی ہے۔ اور یہ زیادہ تر ممالک میں ایک مقبول دن بن گیا ہے۔
روس جیسے کئی ممالک خواتین کے عالمی دن کو قومی تعطیل کے طور پر مناتے ہیں۔ کچھ ممالک جیسے چین میں، بہت سی خواتین اس موقع پر کام سے آدھے دن کی چھٹی لیتی ہیں۔اٹلی میں خواتین کا عالمی دن (مقامی طور پر دی فیسٹا ڈیلا ڈونا کہلاتا ہے) میموسا کے پھولوں کے تبادلے کے ذریعے منایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ قطعی طور پر معلوم نہیں ہے کہ یہ رواج کیسے شروع ہوا، کچھ لوگ اس کی ابتدا دوسری جنگ عظیم کے بعد کے روم سے کرتے ہیں۔امریکہ میں مارچ کا مہینہ خواتین کی تاریخ کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہر سال مارچ میں، ایک صدارتی اعلان امریکی خواتین کی کامیابیوں کی یاد میں کیا جاتا ہے۔ خواتین کے عالمی دن پر ہر سال ایک مخصوص موضوع ہوتا ہے۔ اس مرتبہ 2024 کی تھیم ’خواتین میں سرمایہ کاری اور پیشرفت کو تیز کریں‘ رکھی گئی ہے جس کا مقصد معاشی عدم استحکام سے نمٹنا ہے۔ خواتین کے عالمی دن منانے کا مقصد ملک اور دنیا کی تمام خواتین کو عزت دینا اور انہیں بااختیار بنانے کے بارے میں بیدار کرنا ہے۔ اس کا مقصد خواتین کو معاشرے میں مساوی حقوق دلانا اور انہیں ان کے حقوق سے روشناس کرانا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے یا یہ دن ایک تقریب بن کر رہ گیا ہے؟ دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ آج بھی یہ اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ خواتین پر تشدد روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ اس لئے انہیں مساوی حقوق اور مواقع فراہم کئے جائیں۔ لیکن اگر ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو معاملہ بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں خواتین پر تشدد صفر ہو۔ ترقی یافتہ ملک ہو یا غریب اور پسماندہ ملک، ہر جگہ خواتین جسمانی یا ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ اگر ہم عالمی اعدادوشمار کی بات کریں تو25؍ فیصد خواتین کو کسی نہ کسی وقت اپنے شوہر یا غیر مرد کے ذریعے جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دنیا بھر میں خواتین کی تعداد مردوں کی تعداد تقریباً برابر ہے۔ ورلڈ سیکس ریشوکے مطابق مردوں کی اوسطاً تعداد3.97بلین اورخواتین 3.90بلین ہے کے باوجود خواتین کو پسماندہ طبقہ سمجھا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ ہرمرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتاہے مگرزیادہ ترمرد اس بات کواپنی توہین سمجھتے ہیں اس لیے اپنی خواتین کو آگے نہیں آنے دیتے ۔ ایشیا خاص طو پر پاکستان میں خواتین کی بڑی تعداد کسی نہ کسی پیشے سے بالواسطہ یا پھر بلاواسطہ منسلک ہے اور ان کی پریشانیاں اور مسائل بھی بے پناہ ہیں۔ ایسا معاشرہ جہاں عام انسان یا مزدور کو اس کے حقوق نہیں ملتے وہاں خواتین کو ان کے حقوق میسرہونا خواب ہی ہے۔ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیرآج بھی خواتین اپنے حقوق کی منتظر ہیں۔ مغرب جسے انسانی حقوق کا علمبردار سمجھا جاتا ہے وہاں کی خواتین بھی کافی عرصہ سے اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کیلئے احتجاج کر رہی ہیں۔ امریکی خواتین کا ماننا ہے کہ وہ قابلیت اور صلاحیت میں کسی مرد سے کم نہیں لیکن انہیں مرد سے کم تنخواہ دی جاتی ہے جو ان کے ساتھ زیادتی ہے۔