آج کل ہم جس کو ہم محبت کا نام دیتے ہیں وہ تو فقط نفس کی لغزشیں ہوتی ہیں ، چند ایسی لذتیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ جیسے آگ کے شعلے ہوا کے ساتھ تیز بھڑکتے چلے جاتے ہیں ویسے ہی جتنی ہوا ان لذتوں کو دی جائے یہ اس قدر ہی بڑھتی چلی جاتی ہیں ، جذبات مچلتے جاتے ہیں اور خواہشات بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔
نفس ایک ایسا گھوڑا ہے اگر ایک بار لگام ہاتھ سے چلی جائے تو بے لگام ہو جاتا ہے ۔ عام طور پر ہم فقط جسمانی لذت کے حاصل کرنے کو ہی نفس کے بہکنے کا نام دیتے ہیں ۔ مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ نفس کا مضمون دیکھا جائے تو بہت وسیع ہے ۔ اگر اس کو مختصراً بیان کیا جائے تو یہ جسمانی لذت ، سمائی لذت ، زبانی لذت ، ذہنی/دماغی لذت اور بصری لذت کا مجموعہ ہے ۔ ہمارے ہاں عموماً فقط جسمانی لذت ہی موضوعِ بحث ہوتا ہے ۔ لیکن میری تحریر میں زیرِ بحث عنوان ذہنی / دماغی لذت ہو گا۔
ذہنی لذت کی بات کی جائے تو اس لذت کو ہم دماغی لذت کی اصطلاح کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔ آج کل کی نسل وہ نسل ہے جو صرف ظاہری چیزوں تک محدود ہے۔ گہرائیوں تک جانا ہی نہیں چاہتی ۔ کھوج لگانے سے خوف کھانے والی نسل اور اس میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں ۔ جب انسان کو کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی یا کہہ لیں کہ وہ خاص انسان ، چیز یا خواہش لاحاصل ہوتی ہے تو نفس کی بھوک بڑھتی چلی جاتی ہے ۔
نفس کو صرف اپنی بھوک مٹانا ہوتی ہے ، اسے راستوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں اس موڑ پر آ جاتا ہے کہ اگر اسے مزید چند لمحے خوراک نہ ملے تو وہ مر جائے گا ۔ دیکھا جائے تو یہی معاملہ نفسانی بھوک کا بھی ہے ۔ نفس کی بھوک آدمی کی بھوک سے کئی گنا شدید ترین ہوتی ہے ۔ جب آدمی بھوک سے نڈھال ہو جاتا ہے تو اس کو واسطہ فقط غذا سے ہوتا ہے ۔ چاہے وہ حرام طریقے سے ملے یا حلال ۔ اسی طرح نفس کو اپنی بھوک مٹانے کے لیے غذا چاہیے ہوتی ہے ، اس کا وسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔جب ضمیر کی آوازکہیں کھو جاتی ہے تو نفس طاقت پکڑتا چلا جاتا ہے۔ جب حرام محبتوں میں جسم حاصل نہ ہوں تو انسان نفس کی تسکین کے لیے زبان ، کان اور آنکھ کے علاؤہ ذہن کو بھی نفس کی بھوک مٹانے کے لیے کام پر لگا دیتا ہے ۔
ذہنی لذت سے مراد وہ تمام سوچیں اور خیالات ہیں جو اس مخصوص انسان سے اٹیچ ہوں ۔ میں یہ بات کہنے سے بالکل شرم محسوس نہیں کروں گی کہ جب جسم حقیقتاً لا حاصل ہوتا ہے تو اس کو ذہن خیالی طور پر حاصل بنا لیتا ہے ۔ انسان جیسے جسم سے حقیقتاً لذت چاہتا ہے ویسے ہی ذہن میں عکس بنا بنا کر لذت لی جاتی ہے ۔ نفس کی بھوک کبھی نہ ختم ہونے والی بھوک ہے ۔ اس طرح جب انسان جان لیتا ہے کہ خیالی طور پر بھی اسے سکون حاصل ہونے لگا ہے پھر چاہے وہ خلوت میں ہو یا جلوت میں لذت حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے ۔ انسان ایسا محسوس کرتا ہے جیسے اسے وہ چیز یا انسان میسر ہو ۔ پھر ایسا ہر گز نہیں ہوتا کہ نفس کی بھوک مٹ جاتی ہے ، نہیں ایسا کہاں ہوتا ہے !
جوں جوں انسان ذہنی خود لذتی میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے تب تب اسکی روح بے چین ہوتی جاتی ہے ۔ روح تو ایک پاکیزہ شے ہے ۔ روح کہاں یہ گند برداشت کرتی ہے ۔ انسان خود کو جسمانی سکون دیتے دیتے روحانی بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔
تب انسان اس مقام پر چاہتا ہے کہ دنیا کو چیخ چیخ کر بتائے کہ وہ کس مصیبت میں مبتلا ہے، وہ کس دلدل میں گرتا چلا جا رہا ہے۔ اُس مقام پر انسان کی روح اور جسم میں جنگ رونما ہو جاتی ہے ۔ اگر تو انسان کا نفس ضمیر سے زیادہ طاقت ور ہو گیا تو جسم جیت جائے گا ۔ اگر ضمیر کی آواز نہ دبی تو روح !
پھر روح کا جیت جانا ہی تو اصل کامیابی ہے۔ نیک روحیں ہی تو رب العالمین کو پسند ہیں ۔