ارض فلسطین پھر”لہولہو“ ۔۔۔ تحریر : قصود احمد سندھو (چیچہ وطنی)

قبلہ اول بیت المقدس ایک بار پھر لہو لہو اورزخموں سے چورہے۔فلسطینی مسلمان اپنے وطن اورمسجداقصیٰ کے تحفظ کیلئے اپنے خون اورجانوں کی قربانی پیش کررہے ہیں انسانیت سسک رہی ہے اورنام نہادامن کی دعویداردنیامحوتماشہ ہے۔ یو ں تو حضرت صالح، حضرت یعقوب، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت موسیٰ، حضرت یحییٰ، حضرت زکریا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم پیغمبروں کی نسبت رکھنے والی ارض مقدس مسلمانوں عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے ہمیشہ سے ہی متبرک درجہ رکھتی ہے بیت المقد س کے اپنا قبلہ اول ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان اس کے ساتھ ایک خاص لگاؤرکھتے ہیں لیکن ہیکل سلیمانی کا وارث ہونے کے دعویداریہودیوں نے فلسطین کے مسلمانوں پر طویل مدت سے عالمی سامراج کی مدد سے ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔فلسطین کوآزاد مملکت کا درجہ دلوانے میں اقوام عالم کوناکامی کاسامنا ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اس سلگتے ہوئے آتش فشاں کی بد ولت ہر وقت جنگ کے خطرے سے دو چار نظر آیا اب فلسطینی باشندوں کا سانس رکنے لگا تو انھوں نے اپنی زندگی کی بقاء کی جنگ شروع کر دی ہے یہ کوئی پہلی جھڑپ نہیں ہے اس سر زمین پر اس سے پہلے بھی کئی معرکے ہو چکے ہیں ہزاروں انسان ایک بار پھر عالمی اجارہ داری کی بھینٹ چڑھ کر خوبصورت زندگی کی بازی ہار رہے ہیں جن میں بوڑھے بچے مریض اور معذور بھی شامل ہیں پچھتر سال سے جاری اس لڑائی کو ختم کروانے میں عالمی ٹھیکیدار نہ صرف ناکام رہے بلکہ جان بوجھ کر اس قصے کو التواء میں ڈالتے رہے تاکہ ظالم مظلوموں کی شاہ رگ اپنے ظلم کے پنجوں میں مزید مضبوطی سے پکڑ ے رکھے صدیوں سے خون کی پیاسی سرزمین ارض کنعان کی تاریخ کی بھول بھلیوں میں اگر تخیل کا سفر کیا جائے تو گھوڑوں کی ٹاپوں اور ان کے ہنہنانے کی آوازیں ہیجان کی کیفیت میں لگا ئے جانے والے فلک شگاف جنگی نعروں اور ترانوں کی خوفناک آوازوں کے ساتھ ساتھ زخمیوں کی کراہیں مظلوموں کی سسکیاں فریادیں بے کسی اور بے بسی میں ڈوبی آہ و زاریاں بھی سنائی دیتی ہیں اور بدلے ہوئے فاتحین کا تکبر جلال اور انتقامی رویہ بھی جا بجا نظر آتا ہے کہیں کہیں حسن سلوک بھی مگر بہت کم صدیوں کی کشمکش ایک بارپھر اپنی خونی تاریخ دہرا رہی ہے آج کے مد مقابل اسرائیل اور فلسطینی ہیں جو اپنے ملک اور مذہب کے لئے بر سر پیکار ہیں فلسطین اسرائیل جنگ دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے ا سرائیل اور فلسطین ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں صدیوں سے خون کی پیاسی ارض فلسطین ایک بارپھر خون کا خراج مانگ چکی ہے اور اس مٹی کے پروانے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرتے ہوئے انسانی خون کی پیاسی سرزمین کو اپنے خون کا جام پیش کر رہے ہیں دونوں طرف سے اپنی بقا ء کی جنگ لڑی جارہی فرق بس ظالم ومظلوم کا ہے میزائیلوں کی بارش بمباری اور گولیوں کی بوچھاڑ جاری ہے فضاؤں میں بارود کا زہر سرایت کرچکا ہے خوفناک دھماکوں سے پیدا ہونے والی کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی آواز یں دھواں، بارود کی بو، گولیوں کی تڑ تڑاہٹ انسانی جسموں سے ابلتے ہو ئے خون کے فوارے بچوں اور عورتوں کی چیخیں مریضوں کی سسکیاں ہر طرف ایک روح فرساء منظر نظر آتاہے عمارتں ملیامیٹ اور شہر تباہ حالی کاشکار ہیں بھوک افلاس اوربیماریوں کا عفریت اپنے جبڑے کھولے کھڑا ہے ہے ناکافی خوراک اد ویات کی نایابی معاشی بد حالی کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے رہاہے،ہسپتال اور سکول کھنڈرات میں تبدیل اور بازار اجڑ چکے ہیں۔غزہ کی پٹی قبرستان میں بدل رہی ہے پانی اور بجلی کی بندش،عالمی پابندیاں، اسرائیل کے سہ طرفہ حصارمیں قیددنیا کی سب سے بڑی ا وپن ائیر جیل کے قیدی شائد اپنی بقاء کی آخری لڑائی لڑ رہے ہیں جنگ اپنی تمام تر ہولناکیوں اورسفاکیوں کے ساتھ خطے کو اپنے خون خوار پنجوں میں جکڑے ہوئے انسانوں کو نوچ رہی ہے اس نازک صورتحال پہ دنیا بھر کے حساس لوگ خاص طور پر مسلمان پریشان ہیں کہ بے سرو سامانی کے عالم میں نہتے فلسطینی دنیا کی جدید ٹیکنالوجی کا مقابلہ کب تک کر سکیں گے فلسطین کی نازک صورت حال بہت سے سوالوں کو جنم دے رہی ہے کہ فلسطین کا مستقبل کیاہوگا اس کے ہمسائیہ ممالک اس کا ساتھ دیں گے یا خاموش تماشائی کا کردار ہی ادا کریں گے؟کیا اسرائیل اور فلسطین کی مستقل سرحدوں کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے جو کہ ایک مشکل کام ہے۔ کیافلسطین ایک اور بغداد غرناطہ یا اسپین بننے جا رہا ہے؟ کیا الفتح، حماس اور حزب المجاہدین اس جدوجہد میں مشترکہ نصب العین اپنائیں گے یا ماضی کی طرح اپنی اپنی راہ پرہی چلیں گے۔ کیا فلسطین اپنا تشخص بطور آزاد ملک حاصل کر پائے گا؟کیااقوام عالم کوئی عملی اقدام بھی اٹھائیں گی یا بس زبانی جمع خرچ تک ہی محدود رہیں گی؟مسلم اُمہ کا کردار کیا ہوگا؟کیامسلم امہ اپناکرداراداکریگی یااو۔آئی۔سی کی طرزپرصرف مزمتی بیانات تک ہی محدودرہے گی؟ بھوک افلاس کے مارے عالمی حمایت سے محروم فلسطینی کب تک اپنے ناتواں جسم کے ساتھ ایک طاقتور دشمن سے لڑ سکتے ہیں۔ اب ذراایک بارپھرسوالات کو ایک طرف رکھ کرچند لمحے تصور کی آنکھ سے ماضی میں سفر کریں اوردیکھیں کہ مصریوں کی غلا می کی ذلت سہنے، رومیوں کے تلوے چاٹنے والی اورجرمنوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے والی یہودی قوم کو اہل فلسطین نے کس طرح گلے لگایا۔مسلمانوں نے کس طرح ان کیساتھ بہتر سلوک کیا مگر سب احسانوں کو بھلاء کرآج مہمان میزبانوں کے ہی خون کے پیاسے ہو گئے ہیں اوراہل سر زمین کو دربدر کررہے ہیں اورلوگ سوچ رہے ہیں کہ کیا عرب فلسطین کو غرناطہ اور اسپین کی طرح بھولنے جا رہے ہیں یا کوئی حکمت عملی اپنا کر اپنی بقاء کی خاطر کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں گے یا پھر ان میں سے کوئی خوداگلا ہدف بننے کا انتظار کریں گے جیسا کہ لگ رہا ہے۔ اسرائیل کوروکنے کاشائدیہ ان کے پاس آخری موقع ہے۔ورنہ بھیڑیے کا اگلا ہدف کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ پھر کوئی معجزہ ہی انہیں اس عذاب سے نکالے گااورمعجزے روزروزنہیں ہوتے۔
۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں