ہمارے معاشرے میں جہاں ایک طرف بیٹیوں کو رحمت سمجھا جاتا ہے،اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ۔ان کی ہر بات کا مان رکھا جاتا ہے۔ انہیں نازوں سے پالا جاتا ہے ،تو وہیں دوسری طرف انہیں ایک بوجھ قرار دیا جاتا ہے۔ ایک ایسا بوجھ جسے کوئی بھی اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی کے ہاں دو یا تین بیٹیاں پیدا ہو جائیں تو ان پر تو جیسے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے کہ ہائے! یہ ہمارے ساتھ کیسی نا انصافی ہو گئی ہے۔ اور پھر ساری زندگی ان رحمتوں کے ساتھ ناروا سلوک قائم رکھا جاتا ہے ۔اور ان کی ماں کو بد قسمت قرار دے دیا جاتا ہے۔اور پھر وہ ساری زندگی گھر اور باہر والوں کے طعن و تشنیع کا نشانہ بنی رہتی ہے۔ اس سارے کھیل میں صرف اور صرف عورت بیچاری ساس کے طعنے ،شوہر کی بے رخی،اور دنیا والوں کی تنقید کا نشانہ ،اور لوگوں کے تبصروں کا مرکز بن کے رہ جاتی ہےاور بات طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ اس سارے عمل میں عورت کے جذبات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔کوئی اس سے اسکی مرضی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔کوئی اس سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہ کیا سوچتی ہے،کوئی اس سے استفسار نہیں کرتا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ایسے میں مرد اسے اپنے پاؤں کی جوتی جیسے القابات سے نوازتا ہے اور وہ مظلومیت کہ داستاں بن کر خود کو حالات کے دھارے پر بہنے کے لئے چھوڑ دیتی ہے اور ظلم و جبر کو برداشت کرتے کرتے اپنی شناخت تک کو ہی کھو دیتی ہے ۔لیکن اپنےجائز حقوق کے لئے پھر بھی آواز نہیں اٹھاتی۔ایسا کیوں ہوتا ہے! کیوں اسے اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا نہیں سیکھایا جاتا۔ کیوں ہمارے معاشرے میں عورت کو اتنا بے وقعت کر دیا گیا ہے ۔کیوں اسے مرد اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ کیوں! اس کیوں کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ عورت نےخود اپنے مقام کو سمجھا ہی نہیں ، اپنے لئےآواز اٹھانا کبھی اس نے سیکھا ہی نہیں ۔ اور ہمارا معاشرتی نظام بھی اسے خودمختار بنانے کی بجائے ایک مرد کا محتاج کر دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بچپن سے ہی بیٹیوں کو تابعداری کے گن گھول گھول کر پلائے جاتے ہیں اور صرف یہ کہہ کر کہ ” آگے جاکر بھی انہوں نے چولہا ہی سنمبھالنا ہے ” جیسے جملوں کی وجہ سے گھر گھرستی کے علاوہ کچھ اور سکھایا ہی نہیں جاتا ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے لیکن اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ کچھ اور کام یا ہنر سیکھ ہی نہیں سکتیں ۔ اسی چھوٹی سوچ کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عورت کا مقام و مرتبہ وہ نہیں رہا جو اسے دلایا گیا تھا۔ اسے شریعت نے ہر حق دلایا ہے لیکن لوگوں کی اس طرح کی سوچ نے وہ سب کچھ عورت سے چھین لیا ہے۔ اسی سوچ کی وجہ سے انہیں خود مختار نہیں بنایا جاتا ۔ بلکہ انہیں تابعداری کی چادر اوڑھا کر ساری عمر بٹھائے رکھتے ہیں۔ لیکن کوئی ہنر،کوئی مہارت انہیں نہیں سکھائی جاتی۔ جسے سیکھ کر وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ سکیں۔ جسے سیکھ کر وہ معاشرے میں عزت کی روٹی کما سکیں۔ اور انہیں لوگوں کی طرف مدد طلب نظروں سے نہ دیکھنا پڑے۔ اور نہ ہی انہیں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پڑے۔ اگر ہر والدین اپنے گھر کی بہن بیٹی کو اسکی شادی سے پہلے ہی خودمختار بنا دیں تو کسی بھی مرد کی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ اس سے اس طرح کا جارہانہ سلوک قائم رکھے۔ اللہ پاک نے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا ہے لیکن عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ لیکن یہاں تو الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے کہ مرد خود کو تو حاکم سمجھتا ہی سمجھتا ہے لیکن ساتھ میں عورت کو محکوم بھی سمجھتا ہے۔ لیکن یہ ایک جاہلانہ سوچ ہے اور ہمارا اسلام بھی اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ اسلام میں اللہ کے نبی نے عورتوں کے معاملے میں نرمی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔ لیکن بد قسمتی سے مردوں کو اپنا حاکم ہونا تو یاد ہے لیکن عورت کا رحمت ہونا، اسکے ساتھ نرمی اختیار کرنا، یہ سب یاد نہیں ہے ۔ اسلام میں مساوات کا درس دیا جاتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں عورتوں کو مساوات کے میم تک بھی رسائی نہیں ہوتی۔ لیکن ہمارے نبی کے دور میں عورتوں کو اس قدر آزادی تھی کہ وہ تجارت یعنی بزنس تک کرتی تھی۔ جی ہاں اس دور میں بھی عورتیں تجارت کیا کرتی تھیں۔ جسکی درخشاں مثال حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہیں۔ لیکن افسوس آج کل کے دقیانوسی مرد عورت کو صرف اور صرف پاؤں کی جوتی اور اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کی محتاج ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر والدین اپنی اپنی بیٹیوں کو خودمختار بنائیں تاکہ معاشرے میں موجود اس جاہلانہ سوچ کا خاتمہ ہو سکے۔اور ہماری بہن ،بیٹیاں کسی کے رحم و کرم پر نہ رہیں۔ وہ اتنی خود مختار ہو جائیں کہ انہیں کسی کی سامنے محتاجی والا ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ۔ اور وہ زمانے کی بے رحم ٹھوکروں سے بچ سکیں ۔اور اس بے رحم معاشرے میں سر اٹھا کے جی سکے۔ خدارا انہیں صرف گھر گرہستی ہی نہ سکھائیں بلکہ انہیں اس معاشرے کے بے رحم بھیڑیوں کا مقابلہ کرنا بھی سکھائیں ۔اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب وہ خودمختار کہلائیں گی۔