بچپن ہی سے لوگوں کو یہی کہتے سنا کہ روزِ محشر ہر رشتہ، ہر جذبہ، ہر احساس فقط اپنی ذات تک محدود ہو گا، ماں باپ اپنے جگر گوشوں، اپنی جان سے پیاری اولاد اور اولاد زندگی، محبّت اور ہر آسائش فراہم کرنے والے ماں باپ کو، ہم مذہب بھائی اپنے دوسرے ہم مذہب بھائیوں اور دوستوں کو ایسے بھول جائیں گے کہ جیسے وہ تھے ہی نہیں۔ سنا ہے قیامت کا دن لوگوں میں نفسانفسی کی ایسی روش اجاگر کرے گا کہ ہر جاندار اپنے خونی رشتوں اور بھائی چاروں کو بھلائے بس “نفسی نفسی” کی رٹ لگائے ہوۓ ہوں گے کہ بس جو بھی بھلا ہو فقط اسی کا ہو، بس اسی کے لئے ہو۔
یقین مانے سن کر حیرت اور شدید حیرت ہوا کرتی تھی کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ کیا اتنا کھڑا وقت بھی آئے گا لوگوں پہ؟ مگر دل کو یہ سوچ کر تسلی دے ہی دیتی تھی کہ چلو اس دنیا، اس زندگی میں اور قیامت کے بعد کی زندگی میں تو ہم نے ساتھ رہنا ہی ہے نا تو کیا ہوا اگر کچھ دیر کو آزمائش آجائے تو۔
مگر میرا اس دنیا میں ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں ساتھ دینے کا خیال فقط میری خام خیالی ہی ثابت ہوئی کیونکہ اب جب میں اپنے اردگرد نظر ڈالتی ہوں اور خاص طور پر اپنے فلسطینی بھائیوں کی حالت دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ انسان بھی کس قدر جلدباز واقع ہوا ہے نا کہ جو بےحسی اور خود غرضی روزِ محشر انسانوں سے اپنوں کی پہچان چھین لے گی ماشاءاللّٰه سے انسانوں کی ان تھک محنت نے ان دونوں چیزوں کو قیامت برپا ہونے سے پہلے ہی قیامت برپا کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
آج دنیا میں کہی بھی کسی بھی ملک میں اگر غیرمسلموں کے ساتھ کچھ برا ہوتا ہے تو پوری دنیا میں ایک کہرام مچ جاتا ہے، ہر ملک میں ریلیاں نكالی جاتی ہیں اور ان چند لوگوں کو انصاف دلوانے کے لئے نعرے بازیاں کی جاتی ہے اور جب تک ان کے حق میں فیصلہ آ نہیں جاتا غیر مسلم برادری سکون کا سانس نہ خود لیتی ہے اور نہ کسی کو لینے دیتی ہے، بیشک یہ بہت اچھی بات ہے کہ کسی بھی شخص کے ساتھ کسی بھی قسم کی زيادتی ہو تو اسے انصاف کا ملنا اس کا حق ہے اور اس کی خاطر آواز اٹھانا ہر انسان کا فرض۔ مگر یہاں میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا انسانیت کے زمرے میں ہر ملک کا، ہر اک مذہب کا اور ہر قوم کا ہر شخص کاؤنٹ نہیں ہوتا؟ کیا انسانیت کے دائرے میں مسلمان نہیں آتے؟ کیا مسلمانوں پہ کیا جانے والا ظلم و بربریت انسانیت کے خلاف نہیں ہے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آج اپنے فلسطینی مسلمان بہن، بھائیوں پہ ہونے والے ظلم اور مقدس اقصیٰ پہ روز روز کی بمباریوں پر اگر غیرمسلم ممالک نہیں بول رہیں تو ہمیں ان کی تقلید کرنے کے بجائے اپنے مسلمان بھائیوں کی حالت اور ان پہ دن رات کئے جانے والے مظالم کے خلاف خود آواز اٹھانے کی اشد ضرورت ہے؟
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس امّت کی پہچان ہی رحم دلی اور پیار و محبّت ہے وہ آج اس قدر پهتر دل اور نفرت کی دلداده بن چکی ہے کہ ان کے سامنے ان کے اپنے فلسطینی بہن بھائیوں اور ان کے معصوم بچوں کی لہو میں ڈوبی لاشییں پڑی ہیں مگر ان کو اپنی ذات کی بہتری و بھلائی سوچنے اور کرنے سے فقط چند لمحوں کی بھی فرصت میسر نہیں کہ جن میں وہ اپنے ان بھائیوں، بہنوں کی حالت زار پر چند تسلی و ہمدردی بھرے لفظ بول سکے اور ان کو احساس دلا سکے کہ وہ اس مشکل وقت میں اکیلے نہیں بلکہ ان کے مسلمان بھائی ان کے ساتھ کھڑے ہیں کہ یہ ہمارا ایمانی فریضہ ہے۔
مسلمانوں اب وقت آگیا ہے کہ ہم آگے بڑھ کر فلسطینی مجاہدین کا ہاتھ پکڑے اور دبنگ انداز میں دنیا کو یہ باور کروائے کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم، کہ اب بہت ہو گیا، اب ظلم کے ان سیاہ گھٹاوں کو چھٹنا چاہیے ہی چاہیے۔
کہتے ہیں نا کہ “ظلم کو قوتِ بازوں سے روکنے کی کوشش کرو اگر یہ نہیں کر سکتے تو زبانی کلامی اس کے خلاف بولو، اگر بول نہیں سکتے تو لکھو اور اگر لکھ بھی نہیں سکتے تو کم از کم ان لوگوں کا ساتھ دو جو کر، بول یا پھر لکھ رہے ہیں”
آج اس مشکل گھڑی میں کہ جہاں آئے روز فلسطینی مسلمانوں کی شہادتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں، میری قلمکار برادری سے انتہائی عاجزانہ سی گزارش ہے کہ آگے بڑھیں اور اپنے قلم کی سياہی کو ظلم کے خلاف استعمال میں لاکر تاریخ کے اوراق کو سنہرا کر دیں اور دنیا کو بتا دیں کہ مسلمان نہ تو اکیلے ہیں اور نہ ہی یہ کٹ مرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔
لکھ ڈالے اس ظلم کے خلاف اور خاص طور پر ان چند گنے چنے نام نہاد لبرل مسلمانوں کے خلاف کہ جن کو اسرائیلی یہودیوں پہ ترس آرہا ہے اور جنہیں لگتا ہے کہ فلسطینی مجاہدین دہشت گردی پھیلا کر ظلم و بربریت کی فضا قائم کر رہے ہیں۔
آہ یقین نہیں آتا کہ کیسے مسلمان ہی اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد ہاتھ جھاڑ کر اک سائیڈ پہ ہو کر بیٹھ گئے ہیں، ارے کیا ان کو فلسطینی مسلمانوں کی حالت زار دكهائی نہیں دے رہی؟ جو کئی سالوں سے اپنی ہی پاک سرزمین پر قیدیوں سی زندگی گزار رہے ہیں، جو ہر صبح اپنے جان سے پیاروں کی خون میں لت پت لاشیں دفنا کر آتے ہیں تو رات کو پھر سے اسرائیل کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے اپنے عزیزوں کے جنازے اٹھائے اور اپنے سالوں کی محنت و محبّت سے بنائے ہوئے آشیانوں کو ملبے کے ڈھیر میں بدلا ہوا دیکھ کر نڈھال ہو رہے ہوتے ہیں؟
ارے جاگ جائیں اور ختم کریں اپنی یہ غلامانہ سوچ کہ اب جاگنے کا وقت ہوا چاہتا ہے وگرنا دیر ہو جائے گی اتنی دیر کہ جب محشر میں فقط اس لئے سر نہ اٹھا پاؤ گے کہ تم نے انبیاء کی مقدس سرزمین اور وہاں بسنے والی معصوم جانوں کی خاطر اپنی آواز تک بلند نہ کی۔
قلم برادری کے ساتھ ساتھ ہر وہ فرد جو زندگی کے کسی بھی ایسے شعبے سے منسلق ہے کہ جہاں اسے چند لوگ جانتے ہو اور اس کی مانتے ہو تو اسے چاہیے کہ وہ وہاں بولے اور لوگوں کو فلسطینی مسلمانوں کے لئے آواز اٹھانے کی خاطر تیار کرے کہ جہاد کا حکم دیا جا چکا ہے اور بحیثیت ایک اچھے اور سچے مسلمان، اس حکم پہ لبیک کہنا ہمارا فرضِ اولین ہے۔
اپنے بچوں کو بتائیں کہ کیوں فلسطین کی خاطر اٹھ کھڑے ہونا ضروری ہے، ان میں محبت کا وہ احساس اجاگر کریں کہ جس کے تحت وہ اپنے ہی جیسے معصوم پھولوں کو اپنی خاص اور معصوم دعاؤں میں یاد رکھیں جو قبلہ اوّل کی محبّت دلوں میں لئے اسرائیل کی لگائی ہوئی آگ میں جهلس رہے ہیں، اپنے بچوں کو مجاہدینِ اقصیٰ کی مسجدِ اقصیٰ سے محبّت و عقیدت کے قصے سنائیں تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ کیونکر یہ پاک سرزمین محبّت و عقیدت کے قابل ہے۔ اپنے بچوں کو تیار کریں کہ اب وہ آگے بڑھ کر پیغمبروں کی سرزمین پہ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں روزِ محشر سے پہلے برپا اس قیامت میں خود غرضی و بے رحمی کی زد میں آنے سے بچائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم جلتے ہوئے فلسطین کو مزید جلنے سے بچانے میں معاون ثابت ہو سکے تاکہ قیامت کے دن اللّه اور اس کے رسول ﷺ کے آگے شرمندگی سے بچ سکے کہ باقی اعمال بھی تو کچھ قابلِ قبول نہیں شائد مظلوموں کے حق میں اپنی آواز بلند کرنا ہی ہماری نجات کا باعث بن کر ہمیں اللہ تعالیٰ اور ہمارے پیارے رسول ﷺ کے آگے سرخ روح کر سکے، کیا خبر اور کون جانے کہ یہ ذرا سا جہاد ہی ہمیں بروز محشر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے گھنے سائے میں کھڑا کروا دے، وہ دن کہ جس دن فقط انہی کو سایہ نصیب ہوگا کہ جن سے اللہ راضی ہوگا۔
اللہ تعالیٰ فلسطینی مسلمانوں اور مجاہدین اقصیٰ کو ایسی فتح نصیب کرے کہ جس کے بعد کوئی ان پہ حاوی نہ ہوسکے، خدا ان کو ایسی آزادی عطاء فرمائے کہ جس کے بعد غلامی کا سورج کبھی طلوع نہ ہونے پاۓ، آمین الٰہی آمین۔