خود کشی خود کو ہلاک کرنایا جان بوجھ کر کسی مشکل سے تنگ آکر اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے کا نام ہے۔اسلام میں خودکشی قطعاً حرام ہے۔
طلباء کسی بھی قوم اور ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ جن پر ملک و قوم کی فلاح و ترقی کا بوجھ اٹھانے نے اور اسے آگے لے جانے کی بھاری ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔حالیہ عرصے میں خودکشیوں کا بڑھتا رجحان دیکھا گیا ہے ۔
حدیث نبوی ﷺ کی روسے (جس نے خود کو جس طرح ہلاک کیا وہ دوزخ میں اُسی طریقے سے سزا پائے گا۔ )
خود کشی کےیہ اسباب ہو سکتے ہیں ۔
1: طالب علم سخت محنت کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرلے گا۔ مگر آخر میں پرچے میں فیل ہونا اسے ذہنی کوفت کا شکار کردیتا ہے۔ اور خودکشی کو گلے لگا لیتا ہے ۔
2 : بعض استاتذہ اس قدر کینہ پرور ہوتے ہیں کہ وہ طالب علم کے مستقبل کی پروا کیے بغیر اسے فیل کردیتے ہیں اور طالب علم نفسیاتی عوارض ڈیپریشن، انگزائیٹی دوسرے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور موت کو گلے لگا لیتا ہے ۔
3 :طالب علم سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اعلی ترین نمبر لے گا، بہترین گریڈز اور جی پی اے حاصل کرے گا۔ ڈاکٹر بنے گا، انجینئر بنے گا، پائلٹ بنے گا وغیرہ وغیرہ۔ مگر مسلسل ناکامی طالب علم کو ذہنی امراض کی طرف لے جاتی ہے ۔اورطنز و تشنع سے بچنے کے لیے وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ملک میں گزشتہ دو سالوں میں 5860طلبا ءنے خود کشی کی ہے ۔اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں ۔جیسے گھر کی اقتصادی پریشانی، دوستو کی طرف سے ناروا سلوک، محبت میں ناکامی یا محبوب کاساتھ چھوڑجانا، ماں باپ سے ناراض گی، امتحان میں فیل ہونا، بے روزگاری، قرض کا بوجھ وغیرہیں۔دھوکہ، ناکامی، مالی پریشانی اور رشتوں میں دراڑ ایسی چیز نہیں کہ آدمی زندگی سے ہی منہ موڑلے۔ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ یہی دراصل انسانیت کی شناخت ہے۔ اپنا دھیان مشکلات کی بجائے حل کی طرف مرکوز رکھیں۔ اس لیے ایسی کتابیں پڑھیں یا ایسے پروگرام دیکھیں جو حوصلہ بڑھاتے ہوں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ڈسپلن پیدا کریں۔ نئی نسل کی قرآن و سنت کی روشنی میں تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کریں۔ ۔ شعوربیداری اور ذہن سازی نوجوان نسل میں پھیلی ناامیدی حرماں نصیبی اور اضطرابی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ترقیوں کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔