انسان اللہ رب العزت کی وہ تخلیق ہے جس کو اس نے بہت پیار و محبت سے پیدا کیا۔زمیں سے مٹی امانت لی اور آسمانوں سے اپنے نور کو روح کی صورت دی۔ واحد تخلیق ہے جو اللّٰہ سبحان و تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ محبت سے غنی ہے۔انسانوں میں اپنا محبوب چنا اور اپنی دوستی کا شرف عطا فرما کر انہیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ۔
فرشتوں سے سجدہ کروا کر عزت بخشی تو غرور وتکبر سے بچانے کے لیے ابلیس کو قیامت تک کا وقت دے کر عبرت کی نشانی دی۔دنیا کی زندگی کو امتحان بنایا تو رہنمائی کیلئے قرآن مجید اتارا۔عقل و فہم عطا کیا تو بھٹکنے سے بچانے کیلئے انبیاء اکرام علیہم السلام بھیجے ۔ جنہوں نے نیکی اور برائی کا فرق واضح کیا ۔انسان سےاس قدر محبت کی کہ نہ صرف خیر پر اجر رکھا بلکہ برائی سے توبہ پر ہدایت کی زندگی لکھ دی۔نفس دیا تو اس کی ملامت کے لیے ضمیر بھی ساتھ دیا۔انسان کو خودی عطا کی تو عاجزی کیلئے قرآن پاک میں واضح کیا کہ اللّٰہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے ۔انسان کو تخت بخت عطا کیے تو اس کی حکمرانی کیلئے اسلامی دور حکومت و تعلیمات کو قرآن و حدیث کی صورت محفوظ رکھا۔ حکمرانوں کو زمینی خدا بننے کی خواہش سے دور رکھنے کیلئے واضح الفاظ میں بیان کیا کہ میں نے انسان کو دنیا میں اپنا نائب مقرر کیا ہے۔انسان کو احساسات و جذبات دیے تو قلم کا علم سیکھا دیا ۔دل دیا تو قرآن کو اس کی بہار بنا دیا۔بے سکونی و بے چینی کو ختم کرنے کیلئے جوڑی دار میں سکون رکھا اور اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دیا ۔انسان کی فطرت میں جستجو شامل ہے تو اس لیے اللّٰہ سبحان و تعالیٰ نے کائنات کے ذرے ذرے میں بے شمار نعمتوں کو چھپا دیا۔انسان کی تسکین کے لیے کہیں پہاڑ بنائے تو کہیں سر سبز درخت اگا دیے،کہیں آبشار بنائے تو کہیں بارش کو رحمت بنا کر برسا دیا۔ دن کوروشن سورج عطا کر کے اجالا بخشا تو کہیں اندھیری رات کو چاند اور ستارے سے خوبصورتی بخشی جو انسان کے دل و دماغ کو بھلی لگتی ہے ۔کبھی اس انسان کے لیے من و سلوی اتارا تو کہیں زمین کو زرخیر کر دیا۔اللہ نے انسانوں سے کسی کو گورا بنایا ،کسی کو کالا ،کچھ کو عربی تو کچھ عجمی مگر سخاوت دیکھیں اس کی کہ برتری رکھ دی نیک عمل میں۔ اللّٰہ رب و العزت نے انسان میں مرد کو طاقتور بنایا تو غلط قدم نہ اٹھیں اس لیے عورت کا محافظ بنا دیا ۔عورت کو کم طاقت دی تو جنت کو قدموں میں رکھ کر رتبہ بلند کر دیا۔بیٹے کو نعمت بنایا تو بیٹی کو رحمت کا روپ عطا کر دیا۔اتنی نوازشیں اتنی رحمتیں بے شمار برکتیں جس مخلوق کو عطا کی وہ واحد تخلیق انسان ہے۔
اگر انسان کی تعریف یہ ہے تو معاشرے میں چند سوالات جنم لیتے ہیں ۔
اگر انسان ان سب خصوصیات کا حامل ہے تو یہ معاشرے میں چلتی پھرتی لاشیں کس کی ہیں ؟ اگر انسان محبت کی مٹی سے تخلیق ہوا ہے تو یہ دل میں حسد و بغض لیے کون پھر رہا ہے؟ اگر اسلام حلال حرام کا فرق واضح کر رہا ہے تو ہر ادارہ رشوت اور لوٹ کھسوٹ سے ہی کیوں چل رہا ؟ اگر مرد محافظ ہے تو اتنی معصوم جانیں کس کے ظلم کا شکار ہیں ؟ اگر عورت عزت والی ہے تو جسم بیچنے والی عورت نہیں ہے کیا؟ اگر اللّٰہ سبحان و تعالیٰ نے رزق لکھا ہے تو یہ چور و سمگلرز کون ہیں ؟ یہ اقتدار کے پیچھے قتل کرنے والے کون ہیں؟
ان سب سوالوں کا جواب اگر دو لائنوں میں دیکھیں تو اللّٰہ رحمان ورحیم قرآن مجید میں ان کے بارے ارشاد فرماتے ہیں:-
“سورج اور اس کی روشنی کی قسم۔اور چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے۔اور آسمان کی اور اس کے بنانے والے کی قسم اور زمین کی اور اس کے پھیلانے والے کی قسم۔اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا۔پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا ۔اور بیشک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا”۔الشَّمْسِ(10-1)
اس سے واضح ہوا کہ اللّٰہ نے نسان کو محبت سے نوازا مگر جنت و جہنم اس کے اعمال کا اجر رکھ دیا جو شخص اس ذات عظیم کی قدرت کی نشانیوں کو پا لے گا اور اپنے نفس پہ قابو رکھے گا انسان کہلانے کا حق وہی ادا کرے گا اور اللّٰہ کی بارگاہ میں کامیاب ٹھہرے گا۔تو ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ہم انسان ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں اگر نہیں تو کیا وجہ ہے اور اس وجہ کو کیسے ختم کرنا ہے تا کہ اللّٰہ سبحان و تعالیٰ کی محبت کی قدر کرنے لائق تو بن سکیں۔