شہیدِ سلام مولانا محمدحنیفؒ جوانی سے قربانی تک ۔۔۔ تحریر : محمدنسیم رنزوریار


محترم قارئین۔میں آج ایک ایسی شخصیت کے متعلق آپ کو آگاہی دیتاہوں کہ جسکے علمیت اسلامیت سماجیت قبائلیت اور سیاست وخدمات سے آپ بخوبی واقف ہونگے۔وہ شخص جمعیت علماءاسلام پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری حضرت مولانا محمدحنیفؒ شہید تھے۔وہ ایک شخص نہیں بلکہ وہ ایک فلسفہ اور نمونہ اسلاف تھے۔شہید مولانا محمدحنیفؒ کی سیاسی قبائلی علمی جہادی سماجی اور دیگر انسانی خدمات پر پاکستان اور افغانستان کے عوام گواہی دیتی ہے کہ واقعی شہید نے دن رات ایک کرکے مظلوم عوام کی خدمت کی۔ اور بلارنگ ونسل بلاتفریق وقومیت ہرکسی غریب کاکام کرتےتھے سماجیت میں جمعیت علماء اسلام اور پاکستان کی تاریخ میں ایک مثال قائم کیا گیا۔جب سے امریکہ نے افغانستان پر ظلم جبر سے قبضہ جماکر مولانا نے تادم آخری تک امریکہ اور دیگر مفسدین وطاغوتی قوتوں کیخلاف سیسہ دیوار کی طرح علماء طلباء اور مجاھدیں کیساتھ ہرمحاذ پہ پیش پیش تھے۔اسی طرح علمی جہادی سیاسی سماجی خدمات کے علاوہ صوبہ بلوچستان کی سطح پر ایک عظیم دانا قبائلی رہنماسمجھے جاتےتھے جو ہمیشہ اس وطن وعلاقے میں پرانے رنجشوں کی صلح وحل میں بڑی کردار اداکرتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ علاقے کے خان ۔ملک۔نواب مزاج لوگوں کا مولانا شہید سے ذاتی کن بغض عناد تھے کہ وہ علمیت سے لیکر سماجیت وسیاست کی میدان میں ایک اہم روشن نام رکھتے تھے۔لیکن مولانا ایک عجیب وغریب انسان تھے وہ کبھی دھوکبازی فراڈ اور قومیت کی زہر سے بھری سیاست پر یقین نہیں رکھتے اتنے زیادتیوں کے باوجود وہ اپنے مخالفین کو کردار سے شکست دیتے اور مضبوط منصوبے کے تحت ایک نقشہ فکر عمل اور اسلامی علم کی رہنمائی اور ہمہ گیراصلاح کے روشنی میں تابندہ پروگرام کو لے کر آگے بڑھنے اور دنیامیں ایک پرامن اسلامی اور مستقیم قرآنی نظام کی خواہش مندوترجمان تھے۔شہیداسلام کی تقاریر وخدمات ہمیں فہم وشعور فکر نظر اوراسلامی تعلمیات پرعمل اورچلنے کی درس دیتا ہے۔شہیداسلامؒ تمام زندگی کوشش کرتے کہ انسانی زندگی کی ساعی اور فکروعمل کے تمام شعبوں کو ایسی وحدت بنادو کہ جیسے مسلم امہ ہم آہنگی اور اسلامی مقاصد سے ربطہ ہوجائے۔اسی طرح شہیداسلام وقت کے طاغوتی اور باطل قوتوں سر درد اور قومیت کے گہری اندھیروں کیلئے ایک مشعل کی طرح روشن چمکتےتھے۔وہ ہمیشہ اسلاف دیوبند کے ترجمانی کرتے ہوئےاسلام کے اس عظیم شہدا کی قطار میں جمعیت علماءاسلام پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سکیرٹری ختم نبوت کے محافظ محب الوطن اور ہر دلعزیز شخصیت قائدجمعیت کے دست راست اور بلوچستان کے نڈر سیاستدان عوام دوست شخصیت شہیداسلام شہیدجمعیت حضرت مولانا محمدحنیفؒ بھی شامل ہوئے۔۔شہیدمولانا محمدحنیفؒ نے بلوچستان بھر کے اضلاع میں چالیس سال تک جمعیت علماء اسلام کے فلیٹ فارم سےغریب اور بے بس عوام کا ترجمانی کیا۔جہاں بھی عوام کو کوئی مشکل درپیش ہوتا تو شہیدؒ نے صف اول کا کردار ادا کرتا تھا اسکے علاوہ قبائلی اور سرکاری سطح پہ شہید اسلام نے بے تحاشا خدمات کئے گئے ہیں جسکی واضح مثال اسکے شہادت کے بعد مظلوم اور غریب عوام کی منظر آفسردگی اور غم رازی سے عیاں ہے کہ چارسال مکمل ہونے کے باوجود پاکستان اور افغانستان سے تعزیت کیلئے علماءکرام قبائلی عمائدین اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اشخاص جانشین شہیداسلام حضرت مولانا مفتی محمدقاسم کے پاس تشریف لاتے ہیں اور شہید کی مثالی زندگی کے مثالی خدمات اور اقدات سہراتے ہی شہید اسلام کوخراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔صرف جمعیت علماءاسلام میں نہیں بلکہ دیگر مذھبی اور سیاسی پارٹیوں میں بھی انتہائی سیاسی بصیرت کی بدولت سے مقبول ترین لیڈرسمجھے جاتےتھے۔جب بھی قلعہ عبداللہ میں جنرل الیکشن کا وقت آتا تو شہید سب امیدواروں میں سے مقبول اور عوام پسند امیدوار تصور کیا جاتا تھا۔یہ کوئی الگ بات ہے کہ شہیداسلام حضرت مولانا محمدحنیفؒ نے( کئی) بارجنرل الیکشن کے قومی اور صوبائی نشست پر مقابلہ کیا ہے کہ وہ جیت کر بھی ہارتا وہ مقاصد اور اغراض سب کو سرکاری اور عوامی سطح پر عیاں ہیں۔کہ شہیداسلام وقت کے خانیزم نوابیزم اور بے جا کلاشنکوف کلچرز اسی طرح عیاشی عریانی اور مظلوموں کی حقوق پر ڈھاکہ ڈالنے کے خیلاف تھے۔وہ قبائلی سطح پر مظلوم عوام اور ہر باطل غاصب کی ظلم و جبر کے درمیان سیسہ دیوار کی حثیت رکھتے تھے۔وہ تن تنہاء سب کا مقابلہ کرتے تھے۔کئی بار ایسی بھی ہوا ہے کہ شہید اسلام کو اپنوں نے ہی دیوار سے لگاکر دشمن کو مقابلہ جیتنے کا راہ ہموار کردیاہے لیکن شہیداسلام ایک ایسی انسان تھے کہ جسکی صبر تحمل وسیع سوچ و فکر سے صوبے اور ضلعے کی پرامن برقرار رہاہے۔اسکے پرامن سیاست کا سب سے روشن اور واضح مثال یہ بھی ہے کہ جس نے چالیس سال کی سیاست اور خدمت میں کسی بھی صورت میں کسی کا ایک قطرہ خون تک نہیں بہایا ہے لیکن دیگر صاحباں تو ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی سیٹ جیتنے کیلئے ڈکیتی غارتگری کے علاوہ بڑی پیمانے تک قتل کرنا بھی نہیں چھوڑتے ہیں لیکن شہیداسلام ضمیر اور نظریے کے سوداگر نہیں تھے وہ اسلامی عقیدے اور اسلامی سوچ وفکر کے چٹان کی طرح مضبوط پہاڑ تھے۔قبائلی سطح پر ہزاروں کی تعداد میں قومی تنازعات دور کئے گئے ہر وقت صلح و امن کے اقدامت میں مصروف عمل تھے۔ایک دن شہیداسلام نے اپنے ایک خطاب میں عظیم الشان جلسے کوفرمارہے تھے کہ میرا اس پورے علاقے کے لوگوں کو چیلنج ہے کہ کوئی فرد مجھ پر ثبوت کریں کہ آج تک میں نے کسی قوم یاکسی قبیلے یاشاخ و فرد کاکام پیسوں کی عوض میں کیا ہوں لیکن لوگ کھلم کھلا اس طرح نام نہاد سیاست اور عوامی خدمت پر پیسہ بٹورتے ہی پیٹ پالتے ہیں۔ہم ان میں سے نہیں ہیں جو امریکہ انڈیاء اور اسرائیل کی ناراضگی کی وجہ سے ختم نبوت کی دفاع اور گستاخ رسول کیلئے سزا کی حمایت نہیں کرسکتے ہیں۔ہم الحمداللہ دین وطن کی دفاع اور مظلوم امت کی دفاع ہر محاذ پہ سر کی سودا سے کرتے ہیں۔اسکے علاوہ شہیداسلام نے اپنی سیاسی بصیرت کی روشنی میں جب تاحیات تھیں جوجو پیش گوئیاں کئے ہیں روزبروز وہ حالات اور مناظر ہمارے آنکھوں کے سامنے گزر رہے ہیں۔شہیداسلام مولانا محمدحنیفؒ پیدائشی جمعیت سے وابسطہ تھے ۔طالب علمی کی زمانے سے جام شہادت تک جمعیت کے ایک ذمہ دار کی حثیت سے عہدیدار رہا ۔شہیداسلام کا مختصراًحالات زندگی قارئین کرام کیلئے پیش نظر ہے کہ شہیدحضرت مولانا محمدحنیفؒ کا تعلق ضلع قلع عبداللہ تحصیل چمن آبائی گاؤن ملت آباد سے تھا۔جو کوئٹہ چمن روڈ پر واقع ہے اسی روڈ کے مغربی کنارے پر ایک عظیم علمی درسگاہ بھی شہید کا ایک دین دوستی کا ثبوت ہے جس میں علاقے کے سینکڑوں کی تعداد میں طلباء علمی درسوں سےفیضیاب ہوتے جارہے ہیں۔شہیداسلام نے ابتدائی علوم اپنے والدماجدحضرت مولوی نصرالدین اور چمن شہر کے جید علماءکرام سے حاصل کرنے کے بعد صوبہ پنجاب خیبرپختون خواہ اور بلوچستان کے مختلف مدارس میں زیر تعلیم رہے۔انکے اساتذہ کرام میں حضرت مولانا عبدالغفورؒ۔حضرت مولانا محمدآمینؒ۔حضرت مولانا شیخ حسن جانؒ شہید۔اور حجرت مولانا شیخ قاضی حمیداللہ جانؒ شامل تھیں۔دوران علوم صوبہ خیبرپختونخوا میں بین المدارس انجمن کے صدر اور جمعیت علماءاسلام کی ایک تُند ورکر کی حثیت سے تنظیمی خدمات میں پیش پیش تھے۔جب مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ و دیگر اسلاف نے جمعیت طلباءاسلام کی فعالیت کا حکم دیا۔تو نوجوان تیز وتند شہیدمولانا محمدحنیفؒ نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ضلع قلع عبداللہ( پشین جو اس وقت ضلع تھا) میں جے ٹی آئی کی داغ بیل ڈالی ۔1977ءکو ذولفقارعلی بھٹو کیخلاف چلانے والی تحریک (نظام مصطفیٰ) میں جیل جانے والے کارکنوں میں سب سے کم عمر قیدی ٹھرے۔یوانکی جدوجہد میں مزیدنکھار پیدا ہوا۔اسکے علاوہ روس کیخلاف جہاد کے دوران اکابر پاکستان اور مجاہدین افغانستان کے درمیان پیغام رسانی کا ایک اہم ذریعہ تھے۔اسی طرح جمعیت علماء اسلام کے مختلف عہدوں پر نائب امیر ۔جوائنٹ سکیرٹری ۔جنرل سکیرٹری وغیرہ اور شہادت سے پہلے جمعیت کے مرکزی ڈپٹی سکیرٹری کے عہدے پر اپنے سیاسی اسلامی قبائلی خدمات سرانجام دیتے تھے۔1984ءمیں اپنے استاد محترم حضرت مولانا شیخ حسن جانؒ سے فراغت کا سند حاصل کرکے آغاز ہی سے شہیداسلام میں علمی جہادی اور قبائلی خدمات کی جزبہ وجود رکھتی تھی۔فراغت کے فوراً بعد چمن شہر کے ایک مشہور جامع سے دینی خدمات کا آغاز کیا ۔تین سال کے بعد پھر اپنے آبائی گاؤں ملت آباد کے نزدیک بڑے شاہراہ پر سن1993ءمیں جامعہ دارالعلوم اسلامیہ کی بنیاد ڈالا۔جسکے مہتمم بھی از خود تھے۔سینکڑوں طلباء بیک وقت دینی علوم سے آراستہ کرتے تھے۔کئی عرصہ تک درس وتدریس کا سلسلہ دہراتا تھا۔حالات کی تقاضا کی وجہ سے اور سیاسی بصیرت رکھنے کی خاطر جمعیت علماء اسلام کی دینی فلیٹ فارم سے سیاست کی میدان میں ایک بے لوث عوامی خدمت گار بے داغ ماضی کے مالک ہونے سے روشن ستارے کی طرح چمکنے لگے۔یہی 1993سال ہی سے مختلف قوتوں اور عناصر نے شہیداسلام کو دیوار لگانے کی کوشش میں مصروف عمل تھے۔طرح طرح رکاوٹیں کھڑے کردیتے اور شہیداسلام کو آگے بڑھنے سے مختلف پروپیکنڈوں کے ذریعے سے روکنے کی ناکام کوشش کرتے تھے۔لیکن اللہ کی فضل سے شہید اسلام قبائلی سطح ہر ایک عظیم خدمت گار کی طرح ابھرے جسکے قبائلی خدمات سے مخالف اور دشمن عناصر بھی قائل ہوئے۔کیونکہ شہیداسلام مشکل ترین دور کا جوان مردی سے مقابلہ کرنا انکے شان تھا۔بجاطور وہ ایک ایسے لیڈر تھے جو مایوس انسانوں کو حوصلہ دیتے اور انہیں مایوسی کی گرداب سے نکالتے تھے۔شہیداسلام مولانا محمدحنیفؒ کے صبر و زغم کے داستانیں تو بہت ہیں مگر کچھ زیر بحث لاؤنگا۔کہ آج کے سیاسی افراد پانچ سالہ اقتیدار کیلئے نظریہ عقیدہ سوچ اور فکر معمولی سی اشارے سے تبدیل کردیتے ہیں ۔لیکن اس مظلوم شہیدکیساتھ 62/63کے نام پر جو ہورہاتھا اج اصل حقائق پڑھیں 1993میں جب مولانا محمدحنیف شہیدؒصوبائی اسمبلی کیلئے جمعیت علماء اسلام کی طرف سے حلقہ چمن پر نامزد کردیا تو انتخابی کمپائن انتہائی کامیابی کیساتھ جب آخری مراحل میں داخل ہوا اور مولاناشہیدکی جیت بھی یقینی ہونے والاتھا تو بااثر قوتوں کے ذریعے سے جمعیت کی فلیٹ فارم سے دو روز قبل مولانا کو آزاد امیدوارنصیراحمد باچاخان کی حق میں دستبردار کردیا اور مولانا اور جمعیت کی جیت کو شکست میں تبدیل کردیا۔
1998میں جب جمعیت علماء اسلام کی نامزدگی ہونے والاتھاتو سومیں 95 فیصد رائے مولانا محمدحنیف شہید کی حق میں استعمال ہوئے ایک بارپھر بااثر قوتوں کے ذریعے سے ایک رائے رکھنے والے کو جمعیت پر مسلط کیا اور مولاناکو انتخابی عمل سے دور رکھا گیا۔اسی طرح2002 میں جب انکی بس سے بات نکل گئی کہ مولانا کو الیکشن سے دور رکھیں تو مولانا متحدہ مجلس عمل کی طرف سے منتخب ہوئے اور الیکشن میں حصہ لیکر پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے چیرمین کو ۸۰۰۰ووٹوں سے شکست دیکر دوچارکردیاپھر محمودخان اچکزئی نے اس وقت افغان قونصلیٹ اور افغان صدر کے ذریعے سے پاکستان کے بااثر قوتوں کی طاقت سے اپنی شکست کو جیت سے بدلا اس وقت کے ڈپٹی کمشمنر جمشید حسنی تمام داستان کے چشم دید گواہ بھی رہا۔اسکے بعد ظلم کا یہ سلسلہ مولانا محمدحنیف شہیدؒکیساتھ نہ رک سکا 2005 میں جب بلدیاتی انتخابات ہوئے جمعیت علماءاسلام بھاری اکثریت سے جیتا تو جمعیت کی پینل تحفظ امت مسلمہ سے مولانا شہیدؒاتفاقی طور ضلعی نظامت اعلی کیلئے امیدوار ہوا ایک سازش کے تحت مولانا شہیدکیساتھ میٹرک کی جعلی ڈگری ایک قوم پرست کی طرف سے بااثر قوتوں نے جمع کراتے ہوئے اورمولانا پر سخت پریشر اور دباؤڈالتے ہوئے الیکشن سے قبل دستبردار کرانے کی کوشش کی پھر اسی وقت کے ڈپٹی کمشنر حافظ شیر علی نے صاف طور پر کہا کہ آپ کو بااثرلوگ نہیں چاہتے ہیں اسکے بعد مولانا نے جماعتی وکلا سے مشاورت کرکے دستبرداری کا اعلان کیا اور حاجی آدم خان اچگزئی کو ناظم اعلی قلع عبداللہ منتخب کیا ۔عجیب داستان ہے ظلم کا اور عجیب عزم استقامت تھا شہید اسلام کا۔2008 میں پھر جب جنرل الیکشن آیا تو مولانا محمدحنیف شہید نے جمعیت علماءاسلام کی ضلعی مجلس عملہ سے انکار کیا کہ نہ تو میں کنڈیڈیٹ ہوتا ہوں اور نہ میں الیکشن میں حصہ لیتا ہوں لیکن جمعیت کی ضلعی مجلس عاملہ کی اجلاس میں طے ہوا تو اراکئین نے عاملہ نے اتفاق رائے سے مولانامحمدحنیف شہیدؒکو حلقہ چمن پر نامزد کردیا لیکن اس دفعہ پشتون خواہ کی بائیکاٹ کی وجہ سے قومی اسمبلی کی سیٹ انتہائی آسانی سے جمعیت جیت سکتا جوکہ حاجی روزالدین کی ضلعی عاملہ نے نامزد کردیا اور کامیاب بھی ہوا لیکن مولانا کیساتھ جماعت کے اندر ساتھیوں نےدوسرے امیدوار کو مقابلے میں نامزد کردیا پھر بھی شکست نہیں دے سکتے اور پھر کیپٹن عبدالخالق جوکہ 2500ووٹ لینے والا ممبر تھا اسکو راتوں رات ہزاروں ووٹ دیکر انکے پولنگوں پر ووٹر لسٹوں اندراج کی ناموں سے زیادہ ووٹ دینے پر کامیاب کرایا۔
ظلم کا ایک اور داستان 2013 میں جمعیت علماء اسلام دو دھڑوں میں تقسیم تھے الیکشن آتے ہی پوری شہر میں یہ چرچے اور شورتھا کہ اس دفعہ بڑے ووٹ محموخان اور چھوٹے ووٹ مولانا محمدحنیف شہیدؒکو دینگے لیکن بااثر اداروں نے ظلم بند نہ کرتے ہوئے اس دفعہ مولانا پر جعلی ڈگری کا کیس بنایا ایک قوم پرست تنظیم کی طرف سے وہ2005 والا ڈگری جسکو نہ مولانا نے پیش کیا تھا اورنہ مولانا پر حاصل کرنے کی کوئی ثبوت تھے خود قوم پرستوں نے مولانا کے نام پر سکھر سے لاکر 2005میں پیش کیا اس دفعہ دوسرے بااثر قوتوں نے بہانہ بنا کر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردیا اور جب مولاناکی طرف سے وکلاء نے دفع دعویٰ پیش کیا تو سارے وکلاء نے فیصلہ آنے سے پہلےمولانا کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی کیس میں کچھ نہیں آپ بحال ہوجائینگے جب فیصلہ سنانے کا وقت آیا تو مولانا کو الیکشن کیلئے نااہل قرار پایایہ سلسلہ سپریم کورٹ تک پہنچابالاخر الیکش سے پانچ دن پہلےبحال کردیالیکن مولانا الیکش کی تمام دورانیہ میں کمپائن کرنے کی وقت مقامی ووٹرز سے دور گزرا اور بااثر قوتوں نے اس دفعہ پھر کھیل کھیلا اور اپنی من پسند شخص سے جتوایا۔اب وقت سے پہلے ظلم کا سلسلہ شروع ہوا چونکہ 2018 کے الیکشن قریب آتے ہی بااثر قوتوں کی اثر قوم پرستوں کی طرف سے جعلی ڈگری والے کیس کی پیروی کرتے ہوئے سابق نوازشریف کیساتھ مولانا محمدحنیف شہید کو بھی نااہل کردیا لیکن اب بھی سینکڑوں بدتر جعلی ڈگری والے کیسیز ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں موجود ہیں جو کہ انہوں نے اسی ڈگریوں سے الیکشن لڑا ہے کامیابی حاصل کیاہے ان سب میں مولانا کیساتھ کیوں یہ ظلم ہورہاتھا بااثرقوتوں کو یہ معلوم تھا کہ مولانا محمدحنیف شہیدچالیس سالوں سے بلوچستان کی سرزمین پر بلاامتیاز عوامی خدمت اور شیخ الہند کی اصلی پیروکار ہے اور اگر یہ سلسلہ چلا تو ضلع قلعہ عبداللہ سمیت پوری بلوچستان میں بڑھتی ہوئی مقبولیت سے راج کریگا لیکن قوم پرست اور لادین تنظیموں سن لئے مولانا کی نام اور خدمات ہمیشہ رہنگےاس لئےجنرل الیکشن کے جیتے ہوئے سیٹ کو ہر دفعہ علاقائی اور قبائلی امن وامان کی خاطر مخالفین کو دیتے کہ کوئی قومی تصادم پیش نہ آجائے۔اسکے علاوہ قوم پرستوں اور مقتدر قوتوں کی طرف سے کئی بار شہیداسلام کو تکالیف پہنچ چکے ہوتے مگر یہ فرشتہ درویش صفت انسان نہ خوف اور نہ ڈر محسوس کرتے بلکہ مزید بھی عوامی مقبولیت حاصل کرتا رہا۔ان تمام تکالیف اور مشکلات کے باوجود مظلوم کا ساتھ جمعیت کے دستورو منشوراور قبائلی خدمات سے ایک انچ پیچے نہ ہٹا ۔آخر کار اس مثالی زندگی کے مالک اور عوامی ترجمان مظلوم امت کے لیڈر کو 28ستمبر2019 کو چمن کے تاج روڈ عوامی دفتر کے مین دروازے پر ایک ستمگر شام کو بھرے بازار میں ایک بم دھماکے میں شہید کیاگیا۔اتنی بڑی دلخراش واقعہ کی پیش آنے کے باوجود تفتیش میں وقت کے صوبائی جماعت صوبائی ممبرز اور ضلعے کی انتظامیہ خواب غفلت کے نیند میں سو رہے ہیں۔اب تک ٹھوس معلومات کسی بھی ادارے کی طرف سے عوام کو نہیں ملا ہے۔لیکن ہم پُرامید ہیں کہ جسطرح عوامی طاقت شہیداسلام کے ساتھ تھا وہی طاقت جانشین اسلام نوجوان مفتی محمدقاسم کے ساتھ رہیگا اور ان شاءاللہ ہمارے اس مظلوم شہید کی خون راہیگا نہیں جائے گا ایک دن ضرور رنگ لائے گا۔اس حوالے سے 29ستمبر 2023 کو شہیداسلام حضرت مولانا محمدحنیفؒ کی یاد میں ایک عظیم کانفرنس ہوگا جس میں جمعیت علماء اسلام کے مرکزی وصوبائی قیادت کے علاوہ سیاسی و قبائلی عمائدین خراج عقیدت پیش کرینگے۔ان شاءاللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں