حصول اولاد کے لیے قتل۔۔۔ تحریر :حمیراعلیم


سمبڑیال میں ایک حاملہ خاتون کو دو خواتین نے مل کر قتل کیا پھر اسے ایک ٹرنک میں ڈال کر گھر میں چھپا دیا۔وجہ قتل کیا تھی اس خاتون کے بچے کا حصول۔ایک عمر رسیدہ خاتون کی بیٹی تیرہ سال سے بے اولاد تھی۔اس کے شوہر اولاد کی خاطر شادی کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ اس لڑکی نے جھوٹ بول دیا کہ وہ امید سے ہے۔لیکن ماں کو سچ بتا دیا۔ماں بیٹی کا گھر بسانا چاہتی تھی۔لہٰٰذا اس نے سوچا کہ محلے میں جو خاتون امید سے ہے اسے مار کر بچہ لے لیا جائے۔
اس مقصد کے لیے اس نے محلے میں موجود ایک ڈاکٹر کو ستر ہزار دئیے۔اس بزرگ خاتون نے رافعہ نامی حاملہ خاتون کو جوس میں بے ہوشی کی دوا ملا کر دی۔اس کے بے ہوش ہونے کے بعد اس کی کمر پر سوار ہو کر اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔اس دوران ڈاکٹر نے اس کا پیٹ چھری یا بلیڈ سے چاک کر کے بچہ نکال لیا۔پھر دونوں نے مل کر رفیعہ کو ٹرنک میں ڈالا۔محلے کے کچھ لڑکوں کے ذریعے اسے اٹھوا کر لوڈر رکشہ میں رکھ کر خاتون اس لاش کو گھر لے گئی۔پھر اپنی بیٹی کے ساتھ بچہ ہاسپٹل لے گئی۔سات ماہ کا بچہ جانبر نہ ہو سکا۔ خاتون نے اس بچے کی لاش کو بیٹی کے سسرال کے سامنے پیش کر کے بیٹی کو سچا ثابت کر دیا۔
لیکن چونکہ دونوں خواتین عادی مجرم نہیں تھیں اس لیے فورا پکڑی گئیں۔رفیعہ کے شوہر کی ایف آئی آر کے بعد پولیس نے سی ٹی وی کیمرہ سے رفیعہ کے ڈاکٹر کے گھر جانے کا سراغ لگا لیا۔اور پھر اس کی گمشدگی کا معمہ حل ہو گیا۔اس واقعہ سے ہمیں بہت سے اسباق حاصل ہوتے ہیں۔جب انسان اللہ کی رضا میں راضی نہیں ہوتا اور اس چیز کے حصول کے لیے ہر حربہ آزماتا ہے ہر حد سے گزر جاتا ہے جو اللہ تعالٰی نے اسے نہیں دی تب بھی وہ اسے حاصل نہیں کر پاتا۔لیکن گناہ گار ضرور بن جاتا ہے۔
اولاد کو اسی لیے فتنہ کہا گیا ہے کیونکہ انسان اولاد کی خاطر حرام کام بھی کر لیتا ہے۔اگر خاتون بیٹی کے بانجھ پن کو قبول کر لیتیں۔اور اس کے جھوٹ کو سچ بنانے کی بجائے اسے سچ بولنے کی تلقین کرتیں تو شاید تین گھر تباہ ہونے سے بچ جاتے۔اور سسرال اور شوہر لڑکی کو اتنا پریشرائز نہ کرتے کہ اسے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا تو شاید یہ قتل نہ ہوتا۔
اگر باہمی رضامندی سے بچہ اڈاپٹ کر لیا جاتا یا شوہر کے اولاد کی خاطر دوسری شادی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی شادی کروا دی جاتی تو اس گناہ سے بچا جا سکتا تھا۔لیکن ان خواتین نے ایک جھوٹ کو نبھانے کی خاطر کئی گناہ کر دئیے۔ جب انسان حدود اللہ سے تجاوز کرتا ہے تو ناکام تو ہوتا ہی ہے برے انجام سے بھی دوچار ہوتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ مجھے بہت سی برائیوں کی عادت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر وہ کہنے لگا کہ میں جھوٹ بولتا ہوں،زنا کرتا ہوں،شراب پیتا ہوں اور نہ جانے اس طرح کی کن کن برائیوں میں مبتلا ہوں، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھوٹ کو چھوڑنے کی نصیحت کرکے رخصت کردیا۔ اوراس طرح اسے جھوٹ کو چھوڑنے کے نتیجہ میں اس کی ساری برائیاں ختم ہوگئیں کیونکہ اگر اس سے پوچھا جاتا تو وہ سچ بولتا اور سچائی کی وجہ سے اس کا عیب سب پر ظاہر ہوجاتا ۔لہذا سچائی نے اس سے ساری برائیوں کو ختم کردیا۔
ایک جھوٹ چھپانے کی خاطر انسان سو جھوٹ بولتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہر حال میں سچ بولا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں