جب میں حکومت کے فعال دانشوروں سے بات کرتا ہوں تو انہیں مطمئن اور مسرور پاتا ہوں انہیں فائلیں لہراتے بازو تھپتھپاتے اعداد و شمار کے پہاڑ کھڑے کرتے اور دعوؤں کے انبار لگاتے دیکھتا ہوں۔ ایک لمحے کے لئے خیالی دنیا سے باہر قدم رکھنے کی درخواست کرتا ہوں وہ رکتے ہیں ایک لمحے کیلئے رکتے ہیں تو میں عرض کرتا ہوں یاروں کچھ خیال کرو عام آدمی کی حالت بڑی پتلی ہے۔ تمہیں معلوم ہے تیل، گھی، آٹا، چینی، دالیں، چاول، دودھ، دہی، سبزی، بجلی، گیس کے بل، بچوں کی فیس، علاج معالجے کی سہولتیں، ادویات کی قیمتیں میں ان سے پوچھتا ہوں یہ لوگ کیسے زندہ رہیں گے؟
کاش دیکھنے سننے اور دلوں کا بھید پانے والا رب ان 76برسوں کے بعد ان 22کروڑ لوگوں کی ایک اہل اور مخلص لیڈر کے حصول اور ان کی معجزاتی قیادت کی دعا قبول کر لیتا اور یہی ان سسکتے‘ رینگتے تڑپتے لوگوں کے لئے اس کا سب سے بڑا کرم اور انعام ہوتا۔ پھر سوچتا ہوں کہ جس ملک کی 60فیصد آبادی کا ’’خدا‘‘ ظالم ان پڑھ اور جاہل جاگیردار ہو گا اس ملک میں بھوک افلاس جہالت اور بیماری نہیں ہو گی تو کیا ہو گا؟ جس ملک میں 21ویں صدی کی ایک چوتھائی گزرنے کے باوجود فیوڈل ازم قائم ہو، جس ملک کے 70فیصد عوام کی گردن زمینداروں اور سرمایہ داروں کے جبڑوں میں دبی ہو، جس کی ساری معیشت فرعونوں کے قبضے میں ہو، جس کا نظریہ جس کی سالمیت اور جس کی بقا بے حس لوگوں کے قدموں میں پڑی ہو، اس ملک کے عوام رینگنے والے کیڑے نہ بنیں تو کیا بنیں۔ جس ملک کے اندر اس دور میں جب ترقی یافتہ قومیں آسمانوں پر کمندیں ڈال رہی ہیں۔فیوڈل ازم کا راج ہو جسے برطانیہ نے 1666میں اکھاڑ پھینکا تھا، جسے بھارت نے آزادی کے ساتھ ہی کچل دیا تھا جس پر کم و بیش پوری دنیا میں پابندی لگ چکی ہو اس ملک میں لوگ گونگے اور بہرے نہ بنیں تو کیا بنیں؟ میں جب اس ملک کی دم توڑتی معیشت پر نظر ڈالتا ہوں عام آدمی پر بڑھتا ہوا دباؤ محسوس کرتا ہوں تمام بنیادی اداروں کو برباد ہوتے دیکھتا ہوں ملک سے شہریوں کی کمٹمنٹ کمزور ہوتے‘ انہیں ضروریات زندگی کے ہاتھوں خوار ہوتے روزگار صحت اور تعلیم کے پیچھے بھاگتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آخر خرابی کہاں ہے؟ کیا اس ملک میں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی کمی ہے، کیا اس ملک میں سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے والے دماغ نہیں ہیں، کیا اس ملک میں زمین نہیں۔کیا اس ملک میں زمین کو ذرخیز بنانے کے لئے پانی نہیں ،کیا اس ملک میں چاروں موسم نہیں، کیا اس ملک میں بیج کو نمو دینے والی ہوا نہیں چلتی اور کیا اس ملک پر فضل پکانے والا سورج طلوع نہیں ہوتا۔ پاکستان کی پوری اقتصادی اور معاشی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم بے شمار نشیب و فراز سے گزرے ہیں، اس ملک کی اقتصادی بدحالی پر نہ جانے کتنی رپورٹیں مرتب کی گئی ہیں ،ماہرین کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی مختلف النوع وجوہات تلاش کرتے رہے گزشتہ دنوں ایک ماہر معاشیات سے دریافت کیا کہ آخر اس معاشی بحران کی وجوہات کیا ہیں۔ فرمانے لگے پاکستان کے دو بڑے اقتصادی مسئلے ہیں یہ حل ہو جائیں تو ملک ڈیفالٹ سے بچ سکتا ہے۔ ہم نے عرض کیا اگر کچھ تفصیل مل جائے ‘‘علمی تفاخر سے بولے‘‘ پاکستان ہر ماہ سرکاری ملازمین پر اربوں روپے خرچ کرتا ہے لیکن یہ ملازمین ایک دھیلے کا کام نہیں کرتے پاکستان میں فیڈرل کیپٹل کے زیر اہتمام سینکڑوں سرکاری ادارے کام کرتے ہیں ان میں کئی لاکھ افراد کام کرتے ہیں ان سینکڑوں اداروں میں سے صرف انگلیوں پر گنے جانے والے چند ایسے ادارے ہیں جو اپنے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔پاکستان میں ڈیڑھ سو کے قریب سرکاری ادارے ہیں جن میں 7لاکھ کے قریب ملازمین ہیں یہ ادارے حکومت سے ہر سال ڈھائی سو ارب روپے وصول کرتے ہیں لیکن جواب میں ایک روپیہ نہیں لوٹاتے۔پنجاب‘ سندھ اور دوسرے صوبوں میں بھی یہی حال ہے لاکھوں افراد سرکار سے تنخواہیں لیتے ہیں لیکن کام ایک دھیلے کا نہیں کرتے ہیں، وہ کہنے لگے کہ پاکستان میں بے شمار ایسے منصوبے ہیں جو ہر سال اربوں روپے کھا جاتے ہیں لیکن ان کا out putکچھ نہیں،آپ اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو بے حد غریب اور مقروض ہے جہاں لوٹ کھسوٹ ‘ ڈکیتیاں ‘ چوریاں ‘ اختیارات سے تجاوز کرپشن اور قرضے پی جانا کلچر بن چکا ہے۔ مجھ سے ایک حکومتی کارندے نے پوچھا حکومت قوم کو بحت کے لئے کیسے قائل کر سکتی ہے؟ میں نے عرض کیا عوام تو برسوں سے بچت ہی کر رہی ہے اب آپ لوگ بھی کچھ خیال کریں بولا کیا مطلب؟ میں نے دوبارہ عرض کیا میرے عزیز اس ملک میں کتنے لوگ ہیں جو سال میں دو جوڑے کپڑے سلوا سکتے ہیں ؟کتنے لوگ ہیں جو دن میں تین بار کھانا کھا سکتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو ہوائی سفر کا لطف اٹھا سکتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو اپنی خواہش کے مطابق کچھ کر سکتے ہیں؟ چند ہزار چند لاکھ جب تک یہ لوگ قربانی نہیں دیتے بات آگے نہیں بڑھے گی۔آپ خود دیکھیں کہ یہ لوگ اقتدار سے الگ کیوں نہیں ہونا چاہتے ہیں آپ آج کا سیاسی منظرنامہ دیکھ لیں۔ سیاست اور جمہوریت موروثی بن گئی ہے۔اقتدار اپنے ہی خاندانوں میں رہے عمران خاں کا فلسفہ یہ دیکھاتی دیتا ہے کہ باقی اسمبلیوں کا انہیں کوئی فائدہ نہیں۔ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور پر وزیر اعظم بن جائیں پھر انہوں نے اپنی پارٹی میں لیڈر شپ پنپنے ہی نہیں دی،یہ سوچ یہ انداز فکر ہر پارٹی میں ہے صرف اس لئے میرے عزیز کہ اقتدار ایک ایسی ماں ہے جو ان لوگوں کے سارے نخرے اٹھاتی ہے جب تک یہ لوگ اپنا یہ طرز فکر اپنے رویے اور اپنا لائف اسٹائل نہیں بدلیں گے، کوئی فرق نہیں پڑے گا کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔آپ خود دیکھ لیں ایک کٹھن اور مشکل وقت ہمارے دروازے پر کھڑا ہے، ہمیں پیٹ پر پتھر باندھنے پڑیں گے بہم باندھیں گے بھی ۔پر یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم بھوکے سوئیں اور ہر بچے قربانی کی سولی پر چڑھ جائیں۔ مجھ سے میرے ایک دوست نے کہا تم سنگا پور کی مثال لو جب وہ 1965ء میں آزاد ہوا تو وہاں بنجر چٹانوں اور سمندری جھاگ کے سوا کیا تھا لیکن صرف 10ہی برس میں ساری دنیا کی معاشی جڑیں اس بے آب و گیاہ جزیرے میں پیوست ہو گئیں آج اس جزیرے کے ذخائر سو بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکے ہیں،جب سنگا پور کے چند لوگ یہ معجزہ دکھا سکتے ہیں تو ہمارے ملک کے 22کروڑ لوگ اس ملک کا مقدر کیوں نہیں بدل سکتے ہیں۔ یقین جانیں ہم محنت اور پلاننگ کے ذریعے وسائل اور ٹیلنٹ کی لیکیج روک کر دس بارہ برسوں میں ان ممالک کے قریب پہنچ سکتے ہیں عام لوگوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ آئین میں کتنی ترامیم کرتے ہیں آپ کا نظام صدارتی ہے یا پارلیمانی فیصلے عمامے پہن کر کئے جائیں یا وگ لگا کر ملک کا سربراہ امیر المومنین ہو یا وزیر اعظم چھٹی اتوار کی ہو یا جمعہ کی‘خواتین برقعہ پہنیں یا دوپٹہ اوڑھیں تعلیم عربی میں دی جائے یا انگریز میں انہیں بلوں ترمیموںسے کوئی غرض نہیں، انہیں صاف ستھرا پانی چاہیے باعزت روزگار ضرورت کے مطابق تنخواہیں سستا اور فوری انصاف آزادی تعلیم ‘ دوا‘ سڑکیں بجلی ٹیوب ویل اور ایک سیدھا سادا نظام چاہیے۔جی ہاں عام لوگوں کو نمک چاہیے انہیں ترمیموں اور بلوں کے ڈونگے گلاس اور چمچ نہ پکڑائیں۔ انہیں ڈالر کی قدر‘ ایکسپورٹ ‘ امپورٹ قرضوں کی کہانیاں نہ سنائیں ان کا مطالبہ ان کی خواہش سمجھیں اس کے لئے حکمرانوں کا مخلص ہونا اہل ہونا کچھ کر گزرنے کا آرزو مند ہونا بنیادی شرط ہے۔ اس لئے جناب پیالی میں چمع ہلانا بند کر دیں یہ طے ہے کہ اگر چائے میں چینی نہ ہو تو لاکھ چمچ ہلاتے جائیں چائے میٹھی نہیں ہوا کرتی۔