ابو بکر چودہ سال کا بچہ جو نائنتھ کا اسٹوڈنٹ تھا۔بے حد حساس، کم گو مگر پیار کرنے والا بچہ تھا۔کلاس میں بہترین رزلٹ لینے والا تو گھر میں والدین کا ہاتھ بٹانے والا۔جب سے شعور کی منزل کو پہنچا تھا والدین کی ذمہ داریوں میں ان کا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔والد خوش تھے کہ اب وہ والدہ کے ساتھ گھر کی گروسری کرنے چلا جاتا تھا۔بازار سے کچھ لانا ہوتا توفورا سے لے آتا تھا۔اس سال اس نے موٹر بائیک چلانا سیکھ لی تھی اور یہ اس کا شوق نہیں بلکہ اس کا احساس تھا جس نے اسے بائیک سیکھنے پر ابھارا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اس کی چھوٹی بہنیں اسکول وین کی بجائے اس کے ساتھ بائیک پر جائیں۔
ددھیال ننھیال میں اپنی اچھی عادات کی بناء پر سب کا لاڈلا اور سمجھ دار بچہ اگرچہ صرف چودہ سال کا تھا مگر والدین کے درمیان جھگڑوں پر ان کے بڑے کا کردار نبھاتا انہیں سمجھاتا بجھاتا اور گھر کے ماحول کو پرسکون بناتا۔بچپن سے ہی گھومنے پھرنے کا شوق تھا ناردرن ایریاز خصوصا ناران کاغان اور نتھیا گلی جانے کا جنون تھا۔لہذا چھٹیوں میں جب کچھ رشتے داروں نادرن ایریاز جانے کا پروگرام بنا تو ضد کرنے لگا کہ مجھے بھی ان کے ساتھ بھیجا جائے یا پھر ہم سب بھی ان کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔مگر گھر کی ذمہ داریاں اور والد کی جاب اس بات کی اجازت نہ دیتے تھے کہ وہ چھٹی لے کر اس کی خواہش پوری کرتے۔چنانچہ ناراض ہو کر پھپھو کے گھر منڈی بہاوالدین چلا گیا۔
وہاں اس کے کزنز تھے جن کے ساتھ اس کا وقت اچھا گزر جاتا تھا۔والدین اور بہنیں اسے مس کر رہی تھیں اس لیے جب فون پر بات ہوتی تو اسے واپس آنے کا کہتے مگر وہ وہاں مزید رہنا چاہتا تھا۔ جمعہ کو اس کی ٹکٹس بک تھیں اور اسے واپس اسلام آباد جانا تھا۔پھپھو نے بھی سمجھایا کہ بیٹا اب ناراضگی ختم کر دو اور گھر چلے جاو مگر وہ بضد تھا کہ اسے نہیں جانا۔پھپھو کے اصرار پر اس نے کہا:” اچھا سنڈے کو چلا جاوں گا۔”پھپھو کو لاڈلے بھتیجے کی ناراضگی منظور نہ تھی اس لیے چپ کر گئیں۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ سنڈے کو واپس ضرور جائے گا مگر زندہ نہیں۔
یکم اگست کوصبح چار بجے وہ پھپھو کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر انہیں پکارتا ہے۔وہ جلدی سے دروازہ کھولتی ہیں:”خیریت تو ہے ابو بکر کیا ہوا؟ “اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ کر انہوں نے پوچھا تو ابوبکر جو پیٹ پکڑے تھا۔درد بھرے لہجے میں بولا:” پھپھو مجھے پیٹ پر سانپ نے کاٹ لیا ہے۔”
پھپھو نے جلدی سے اپنے شوہر کو اٹھایاوہ نوکر کے ساتھ اسے لے کر منڈی بہاو الدین کے ڈسٹرکٹ ہاسپٹل پہنچے تو انہیں بتایا گیا:”ہمارے پاس سانپ کے کاٹنے کی ویکسین نہیں ہے۔قریب میں ہی ایک بڑا پرائیویٹ ہاسپٹل ہے اسے وہاں لے جائیں۔”اس ہاسپٹل سے بھی یہی جواب ملا۔اور مشورہ دیا گیا کہ لاہور یا جہلم لے جائیے شاید وہاں ویکسین مل جائے۔
چنانچہ وہ قریبی شہر جہلم کی طرف روانہ ہو گئے۔اس سے پہلے انہوں نے کسی کو جہلم میں فون کر کے درخواست کی کہ سی ایم ایچ جہلم میں جا کر انہیں کہیں کہ سانپ کاٹنے کی ویکسین تیار کر دیں کیونکہ اس ویکسین کی تیاری میں کچھ وقت لگتا ہے۔
لیکن وائے نصیب جہلم ڈسٹرکٹ ہاسپٹل اور سی ایم ایچ میں بھی یہ ویکسین دستیاب نہیں تھی۔لہذا وہاں سے اسے ایمبولینس میں منتقل کیا گیا تاکہ دینہ ہاسپٹل میں لےجایا جا سکے۔ ابوبکر کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔اس کی تکلیف میں اضافہ ہو چکا تھا۔ جب دینہ پہنچےڈاکٹر کے مطابق اس کا خون پتلا ہونا شروع ہو گیا تھا۔زہر جسم میں سرایت کر چکا تھا اس لیے اسے واپس لے جائیں۔اس سے پہلے کہ وہ واپس جہلم ہاسپٹل پہنچتے ابو بکر کا انتقال ہو گیا۔
چند ماہ پہلے کراچی میں آوارہ اور پاگل کتوں کے حملوں سے کئی بچے زخمی ہوئے اور ہلاک ہو گئے۔کیونکہ کراچی جیسے بڑے شہر میں کتا کاٹنے کی ویکسین موجود نہیں تھی۔ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک سات آٹھ سالہ بچہ ہاسپٹل کے برآمدے میں اپنی ماں کی گود میں سسک سسک کر دم توڑ گیا۔مگر ویکسین نہ مل سکی۔
دنیا بھر میں اگر حکومت ٹیکس لیتی ہے تو مفت تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات بھی مہیا کرتی ہے۔اگر کوئی شخص بے روزگار ہو تو اسے ماہانہ خرچ ملتا ہے اگر کسی کی تنخواہ کم ہو تو حکومت اس کے گھر کا کرایہ اور بلز کی رقم کا نصف ادا کرتی ہے۔ جب کہ ہم پاکستانی جو ہزاروں کی تنخواہ میں سے نصف سے زائد تنخواہ ٹیکسز میں ادا کرتے ہیں مگر بدلے میں نہ تو کوئی سہولت ملتی ہے نہ ہی تحفظ۔چند روپوں کی ویکسین تک میسر نہیں جو کہ لائف سیونگ ڈرگزمیں شامل ہے۔تین بڑے شہروں کے پانچ ہاسپٹلز میں یہ ویکسین نہیں مل سکی۔چلیں ویکسین نہیں تھی ابتدائی طبی امداد کے طور پر کیا ایسا کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ زہر بچے کے جسم میں پھیلنے سے روکا جا سکتا۔یا اسے ہاسپٹل کی ایمبولینس میں وزیر آباد، گوجرانوالہ یا لاہور پہنچایا جا سکتا؟ کیا یہ حکومت کے ساتھ ساتھ ان ہاسپٹلز کے اسٹاف کی بھی نااہلی کا ثبوت نہیں جو ویکسینزاور دیگر ادویات کو میڈیکل اسٹور پر بیچ کر پیسے کھرے کر لیتے ہیں اور غریب عوام جن کی سہولت کے لیے یہ ادویات دی گئی ہوتی ہیں وہ ان ہاسپٹلز کے برآمدوں میں فرش پر بے بسی کی موت مر جاتے ہیں۔
دنيا بھر ميں ہر سال لگ بھگ 55 لاکھ افراد کو مختلف مقامات پر سانپ ڈستے ہیں۔ ان میں سے 2.7 ملین افراد کو زہريلے سانپ ڈستے ہيں۔جن ميں سے کئی ہلاک ہو جاتے ہيں تو کچھ کو معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سانپ کے کاٹنے کی ویکسین مہنگے داموں بھارت سے منگوائی جاتی تھی لیکن 2019 میں ڈاکٹر نعیم قریشی نے یہ ویکسین بنائی۔جو کہ پاکستان کی سب سے سستی اور طاقتور ویکسین ہے۔بھارت سے درآمد شدہ اے ایس وی کے 10 سے 12 وائلز ایک مریض کو لگائے جاتے ہیں اور ایک وائل کی قیمت 2 ہزار روپے ہے جبکہ ان کی تیار کردہ اے ایس وی کا صرف ایک وائل ہی ایک مریض کے لیے کافی ہوتا ہے.نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسزہر سال پولی ویلینٹ اینٹی وینم کی تیس ہزار وائلز تیار کرتا ہے۔
باقی سب کاموں کی طرح عوام کو خود ہی سانپ کے کاٹنے سے بچاؤ کے لیے ضروری تدابیر کرنی ہوں گی۔ 1:کاٹےہوئے یاکھڑے گھاس اور جھاڑیوں میں نہ جائیں ،چٹانوں اورپتھرکی دیواروں کے سوراخوں سے دور رہیں،رات کو تیزلائٹ والی ٹارچ کے بغیر پیدل نہ چلیں۔ 2: جولائی تا اکتوبراکثر سانپ کاٹنے کے واقعات ہوجاتےہیں۔کچھ سانپ زہریلے نہیں بھی ہوتے لیکن کوبرا،جلیبی نماتکونے منہ والا سانپ(وائپر) اور چند چھوٹی جسامت والے سانپ بہت زیادہ زہریلےیوتےہیں۔کوبراسانپ دماغ کی نسوں کو متاثر کرتاہے جس سے مریض کو سانس کی تکلیف اور بےہوشی ہوجاتی ہے۔واضح رہے کہ کوبرا سانپ دور سے کھڑاہوکراپنےمنہ سے اپنازہرپھینکتا ہے اگر یہ زہر انسان کی آنکھ یامنہ کے اندرچلاجائے تو کاٹنےجتناہی زہریلا ہوسکتاہے۔ جبکہ جلیبی نماسانپ سے جسم پر سوجھن اور بلیڈنگ شروع ہوجاتی ہے۔ تاہم سانپ کاٹنے کے تمام واقعات کو زہریلے سانپ شمار کرتے ہوئے درج ذیل فرسٹ ایڈ اقدامات لازمی ہیں جوزہرکے پھیلاؤ اورزہر کے اثرکو زائل کرسکتے ہیں۔فرسٹ ایڈکے بعد فوراً مریض کو قریبی تحصیل یاضلعی ہسپتال پہنچایا جائے۔1:سانپ کے کاٹنے کے بعد متاثرہ فرد کو ایک قدم بھی چلنے نہ دیں۔مریض جتناپیدل چلےگازہر اتنی تیزی سے جسم میں پھیل کر نقصان پہنچاسکتاہے۔
2:بازو،ٹانگ پر کاٹنے کی صورت میں کاٹنے والی جگہ سے تھوڑا اوپر درمیانہ زورسے پٹی باندھ دی جائے تاکہ زہراوپردل ودماغ کی طرف نہ جاسکے۔
3:کاٹے جانے والے حصہ کو سر اور سینے کے لیول سے نیچے رکھاجائے۔
4:مریض کو زہر کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے تحصیل یاضلعی ہسپتال پہنچایا جائے کیونکہ ویکسین بروقت لگانے سے ہی موثرثابت ہوتی ہے۔مریض کومنہ ناک پیشاب میں خون آنے کی صورت میں ویکسین کے علاوہ سفیدخون اور پلیٹ لیٹس لگانے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔اور کوبرا سانپ کے کاٹنے کی صورت میں بروقت وینٹیلیٹر کئیر جان بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔واضح رہے کہ ویکسین اور سفید خون اور وینٹیلیٹر اسی صورت میں جان بچانے میں مدددے سکتے ہیں جب مریض سانپ کاٹنے کے ایک دوگھنٹے کے اندر ہسپتال پہنچ جائے اگر ایک دو گھنٹے سے زائد زہر کوجسم میں پھیل کر دل،جگر،دماغ پھیپھڑوں کوڈیمج کردے تو پھر ویکسین سمیت کوئی سہولت کارگر ثابت نہیں ہوتی۔سانپ کاٹنے کے بعد ایک دوگھنٹے کے اندرمریض کو ہسپتال پہنچائیں تاکہ ویکسین مؤثر ثابت ہوسکے۔ جب زہر اندرونی اعضامثلا گردے،جگر،دماغ ،دل کو ناکارہ کرجائے تو اس وقت ہسپتال دوڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے سانپ اور باؤلے کتے کے کاٹنے کے بعد لوگ ایک دو دن دیسی ٹوٹکے اور ضعیف العتقادی کاشکار رہتے ہیں جب مریض کو زہرپورےجسم اور اعضاءمیں پھیلنے کی پچیدگی سے حالت تشویشناک ہوتی ہےاور دم نکلنے لگتاہے اس وقت ہسپتال میڈیکل ٹریٹمنٹ ویکسین وغیرہ اثر نہیں کرتی اور لواحقین اپنی غفلت کو دوسروں کے سر ڈالنے اور ویکسین نہ ملنے کی غیرحقیقت پسندانہ باتیں کرتے ہیں۔جہاں قرآنی دم برحق ہے وہیں پر بیماری کا بروقت علاج کرانا بھی سنت ہے ۔
ڈاکٹر نعیم ڈسٹرکٹ ہاسپٹل ہجیرہ کے مطابق گزشتہ سال ہجیرہ شہرسے محض بیس منٹ کی مسافت پر واقع یونین کونسل سہرککوٹہ میں سانپ کے کاٹنے سے بچوں اور بڑوں کی ہونے والی
102اموات بحثیت مجموعی ہم سب کے لیے بہت اندوہناک ہیں۔جبکہ پچھلے سال ہی تحصیل ہجیرہ کے سانپ کے کاٹنے سے متاثرہ پانچ چھ مریض ٹی ایچ کیو ہسپتال ہجیرہ میں بروقت ویکسین اور مناسب ٹریٹمنٹ کےملنے کے بعد مکمل صحت یاب ہوئے۔
کاش یہ ویکسین سب ہاسپٹلز خصوصا ان علاقوں کے ہاسپٹلز میں موجود ہو جہاں سانپ پائے جاتے ہیں تاکہ ابو بکر جیسے اور بچے اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔