پاکستان میں صحافت کرنا انتہائی مشکل ترین عمل ہے، اگر آپ پر جھوٹا مقدمہ درج ہوجاۓ تو آپ کو منٹوں میں گرفتار کرلیا جاۓ گا، اگر آپ کسی افسر کے خلاف خبر لگائیں آپ پر مقدمہ درج، اگر آپ کرپشن بے نکاب کریں تو آپ کو لفافہ صحافی کا نام دے دیا جاۓ گا، کہ رشوت نہیں دی تو بے نکاب کردیا، اگر آپ منشیات فروشوں کے خلاف مہم چلائیں تو پہلے تو پولیس آپ کو ہاتھ ہی نہ پکڑاۓ گی، لیکن افسران کے دباؤ میں آکر دو، تین منشیات فروشوں پر معمولی نوعیت کے مقدمات دیں گے، اور انہیں آپ کی نشاندھی کروا دی جاۓ گی، کہ اس صحافی کی وجہ سے آپ پر مقدمہ درج کرنا پڑا ہمیں افسران کی طرف سے دباؤ تھا، بس پھر منشیات فروش چند دنوں میں باہر اور آپ کا نام اور آپ اس کہ ٹارگٹ پر اسی طرح دیگر جرائم کو بے نکاب کرتے کرتے تقریباً ہر طرح کا جرائم کرنے والا شخص صحافی کو اپنے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرلیتا ہے، پھر ہوتا یہ ہے کہ کچھ بااثر جرائم پیشہ عناصر پولیس کے ساتھ ساز باز ہوکر صحافیوں پر جھوٹے مقدمات درج کروا دیتے ہیں، وہ مدت بھی گزر ہی جاتی ہے، بلاآخر صحافی ان مقدمات میں سے بری و ذمہ بھی قرار پاتے ہیں، اس سارے عرصے کہ بعد جب صحافی کیسوں میں سے بری ہوجاتا ہے، اور پھر بھی ڈٹا رہتا ہے، لیکن اپنے شفاف مقصد اور پیشہ کی پاسداری سے نہیں ہٹتا پھر ہوتا یہ ہے کہ صحافی پر حملہ کروانے شروع کردئیے جاتے ہیں، کبھی ناقابلِ دست اندازی جرم قرار دے کر درخواست داخل دفتر کردی جاتی ہے، اور اگر کبھی سنگین نوعیت کا حملہ ہوجائے تو مجبوراً مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے، اس کہ بعد بس تھانہ آنے جانے اور ادھر اودھر کہ معاملات چلتے رہتے ہیں، جب صحافی اپنے ملزمان کی نشاندھی کردیتا ہے تو اسے نئی نئی سٹوریز سنائی جاتی ہے، اور اتنا بدزن اور ذہنی مریض بنا دیا جاتا ہے کہ ذیا تر صحافی دل چھوڑ جاتے ہیں، یا تو صحافت چھوڑ جاتے ہیں یا اپنا بدلہ خود لینے کہ چکر میں وہ امن دشمن عناصر کا مقصد پورا کردیتے ہیں، اپنے ملزمان کو سامنے دیکھنا اور قانون کو بے بس پانے کا جو لمحہ ہوتا ہے نہ وہ خودکشی کا لمحہ ہوتا ہے، ہمارے لیے قانون نئی نئی دفعات تیار کرلیتا ہے اور اگر ہمارے ساتھ ذیادتی ہوئی ہو تو قانون آپ کو اپنے نئے نئے قانونی مراحل میں ڈال کر ذہنی مریض بنادیتا ہے اور ان عناصر کا مقصد پورا ہوجاتا ہے جو آپ کی شفاف صحافت کو داغدار کرنا چاہتے ہیں، کب آپ کو مدعی سے ملزم بنا دیا جاتا ہے، آپ کو علم ہی نہیں ہوتا دراصل اس سارے معاملات کی ایک بڑی وجہ صحافی برادری کا آپس میں اتحاد نہ ہونا بھی ہے، تحریر کے آخر میں ایک بات بتاتا چلوں یہ کوئی دیکھی، سنی تحریر نہیں ہے، بلکہ یہ محمد احسان مغل کی ذاتی زندگی کا ایک مختصر خلاصہ ہے، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ نہ میں ہمت ہارا نہ میں جھکا نہ میں بکا نہ میں ڈرا اور میرے ملزمان نہ گرفتار ہونا انتظامہ کی موں بولتی نااہلی ہے، آئی جی پنجاب سے ایک بات کہنا چاہوں گا، جناب اپنے پولیس کے جوانوں کو ترقیاں دینے کے ساتھ ساتھ عوام کا درد محسوس کرنے کی صلاحیت اور تربیت بھی دیں، میرا نام محمد احسان مغل ہے میں ایک صحافی تنظیم کا سربراہ ہوں، میں لیڈرشپ کی اہمیت بخوبی جانتا ہوں، کبھی اپنی ذات کہ لیے اپنی لیڈرشپ کا استعمال نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی کروں گا، اپنے چاہنے والوں کو ہمیشہ پُرامن رہنے کے ساتھ ساتھ صبر و تحمل کی بھی تربیت دی ہے، ایک اور بات کہتا چلوں میں ان افراد میں سے نہیں ہوں جو جذبات میں آکر امن دشمن عناصر کے عزائم پورے کروں، نہ ہی میں خودکشی کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، میری تربیت زندگی کی آخری سانس تک انصاف کی اُمید رکھنے کا حکم دیتی ہے، جس حکم کا میں تاحیات پابندی رہوں گا، آخری بات میں اپنی ذات پر آج تک ہر طرح کا ظلم برداشت کرتا آیا ہوں اور آج بھی صبر سے ہی کام لونگا، وکیل تو نہیں ہوں لیکن قانونی معاملات سے بخوبی واقف ہوں، اپنی حد تک خاموش ہوں، لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ ہم جیسے مخلص صحافیوں کی انصاف فراہم کرنے کے لیے موجود ہے، لیکن میں ایک صحافی تنظیم کا سربراہ ہونے کہ ناطہ اپنے اُپر ہونے والا ظلم ہونے والی ہر حق تلفی بخثیتِ لیڈر برداشت کرتا آیا ہوں اور کرتا رہوں گا، لیکن ایسا کوئی نہ سوچے کے میرے کسی صحافی بھائی کو مجھ جیسی مشکلات میں ڈالا گیا تو محمد احسان مغل خاموش رہے گا، ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہمیں بخوبی انصاف لینا اتا ہے اداروں کا احترام کرتے اداروں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ادارے عدالتوں کہ ماتحت ہیں، محمد احسان مغل قیادت کا شوقین نہیں لیکن جب تک ذندہ ہوں پاکستان کی عوام اور صحافی برادری کے حقوق کی خاطر لڑتا رہوں گا، جہاں زندگی نے ساتھ چھوڑ دیا، تو بندہ ناچیز کے جنازے میں شرکت فرماء کر میری روح کو مطمئن ضرور کیجئے گا، پاکستان ذندہ باد نیشنل یونین آف جرنلسٹس پائندہ باد، آپ سب کی دعاؤں کا طالبگار مرکزی چیئرمین نیشنل یونین آف جرنلسٹس محمد احسان مغل،