پولیو مائلائٹس ایک وبائی مرض ہے جو پولیو وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہےاور ٹانگوں اور جسم کے دوسرے اعضا کے پٹھوں میں کمزوری کی وجہ بن سکتا ہے اور چند صورتوں میں محض چند گھنٹوں میں موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
پولیو وائرس کسی متاثرہ فرد کے پاخانے سے آلودہ ہو جانے والے پانی یا خوراک میں موجود ہوتا ہے اور منہ کے ذریعے صحت مند افراد کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
وائرس کی تعداد جسم میں جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور یہ متاثرہ فرد کے جسم سے خارج ہوتا ہے۔
پولیو کی ابتدائی علامات بخار تھکاوٹ، سر درد، متلی، گردن میں اکٹراو،اعضامیں درد، جسمانی اعضا، زیادہ تر ٹانگوں میں اچانک کمزوری/فالج کا حملہ ہونا ہے جو کہ مستقل ہوتا ہے۔
COVID-19 کےدوران پولیوکارکنان پولیو کے خاتمے کو ٹریک پر رکھنے، پولیو کے پھیلاؤ کو روکنے اور دیگر ویکسین سے بچاؤ کے قابل بیماریوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ویکسین کے ساتھ لاکھوں بچوں تک پہنچنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ویکسینیٹر پوری دنیا کے بچوں اور خاندانوں کو صحت کا تحفظ اور امید فراہم کرتے ہی گو کہ ہر شخص کے لیے یہ خطرہ موجود ہےلیکن پولیو زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے ایسے بچوں کو متاثر کرتا ہے جنہیں پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہ پلائے گئے ہوں۔
ماشوخیل گاؤں کے مقامی سکول کے ہیڈ ماسٹر نے اس سے قبل سکول میں پولیو ویکسین پلائے جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس مرتبہ وہ حکومتی دباؤ کے آگے جھک گئے اور ویکسین پلائی جانے لگی مگر تھوڑی دیر بعد ہی انہوں نے والدین کو فون کر کے بتایا کہ بچے الٹیاں کر رہے ہیں جب کہ ایسا کچھ بھی نہ تھا۔
ڈاکٹر عظمیٰ کی ٹیم میں شامل ایک خاتون کہتی ہیں کہ ’لوگ ہمیں سڑکوں پر ہراساں کر رہے تھے۔گاؤں کے دکانداروں نے ہمیں وہاں سے چلے جانے کے لیے کہا۔ ایک نے تو یہاں تک کہا کہ ‘تم لوگ ہمارے بچوں کو زہر دینے کے لیے آئے ہو۔’
بلوچستان کے اندر تو اور بھی بڑا حال ہے۔پولیو ورکرز کو قتل کر دیا جاتا ہے جس پر انہیں پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ بھیجا جانے لگا مگر افسوس کہ اب اکثر پولیس اور پولیو ورکرز دونوں کے قتل کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔
عثمان پولیو کے قطرے نہ پینے کی وجہ سے پولیو کا شکار ہو گئے تھے ان کا کہنا ہے:”دو بوندیں میری زندگی کو مکمل کر سکتی تھیں ۔ لیکن میرے والدین نے اس میں کوتاہی برتی مجھے ان دو بوندوں سے محروم رکھا جس کی وجہ سے میں اب ایک نامکمل انسان کی زندگی جی رہا ہوں۔میں جس کرب سے گزر رہا ہوں بہت سے والدین اب بھی دانستہ طور پر چاہتے ہے کہ ان کے بچے بھی اسی کرب سے گزرے۔ اس دور میں جہاں معلومات کا ہر طرف دریا بہہ رہا لیکن اس کی باوجود لوگ سازشی تھیوریز کے شکار ہے۔ اور افسوس کن امر یہ ہے کہ ان سازشی تھیوریز کو من و عن و سچ بھی تسلیم کرتے ہیں ۔”
پولیو کے عالمی دن کے موقع پر ڈبلیو ایچ او نے پاکستان اور دنیا بھر سے روٹیرینز کے ساتھ مل کر پولیو سے پاک دنیا کے وعدے کو پورا کرنے کے عزم کیا ہے۔1998 کے بعد سے اربوں بچوں کو پولیو فری زندگی کا تحفہ ملا۔ دنیا نے WHO کے 6 میں سے 5 خطوں میں پولیو وائرس کی منتقلی اور خاتمے میں 99.9 فیصد کمی حاصل کی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی نمائندہ ڈاکٹر پالیتھا مہیپالا نے زور دیا کہ “پاکستان میں پولیو وائرس کی منتقلی اب تک کی سب سے کم ترین سطح پر ہے تاہم ہم ابھی بھی مکمل خاتمے کی لکیر سے بہت دور ہیں۔
پولیو کے اس عالمی دن میں، میں حکومت پاکستان اور پولیو پروگرام کے عملے کی مثالی کوششوں کو سراہتا ہوں جنہوں نے پولیو وائرس کو پاکستان سے باہر نکالنے کا ایک بہادرانہ کام کیا ہے۔ پولیو کیسز کی تعداد کو کم کرنے کے لیے خاصی محنت اور لگن کی ضرورت ہے۔
اس وعدے کی کامیابی کا انحصار مختلف عوامل پر ہوگا جس میں حفاظتی ٹیکوں تک پائیدار رسائی کے تناظر میں حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام (EPI) کو مزید مضبوط کرنا شامل ہے۔ نومبر میں پولیو پروگرام اور ای پی آئی دنیا کی اب تک کی سب سے بڑی ویکسینیشن مہموں میں سے ایک میں تقریباً 90 ملین بچوں کو روبیلا، خسرہ اور پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں گے۔
پاکستان پولیو کے خاتمے کے اپنے مشکل دور میں داخل ہو رہا ہے۔پاکستان کو موجودہ پیشرفت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مضبوطی سے درست سمت پر گامزن ہے۔اس سال کا تھیم پاکستان کے لیے بہت موزوں ہے۔ ہمیں پولیو سے پاک پاکستان کے اس وعدے کو ہر طرح سے پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ میں تمام والدین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے رہیں۔ قوت مدافعت بڑھانے اور پولیو وائرس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا یہ واحد طریقہ ہے۔”
اس سال بھی پاکستان میں 20 کیسز ظاہر ہوئے ہیں۔دنیا بھر میں صرف دو ممالک ہیں جہاں پولیو موجود ہے ایک افغانستان اور دوسرا پاکستان۔پولیو کا خاتمے کے لیے ہر بچے کو جان بچانے والی ویکسین ضرور ملنی چاہیے تاکہ ان کی حفاظت کی جا سکے اور وائرس کے پنپنے کے مواقع کو کم کیا جا سکے۔ پولیو پروگرام کو طویل عرصے سے چیلنجز کا سامنا ہے جیسے کہ ویکسین پلانے میں ہچکچاہٹ، فرنٹ لائن ورکرز کے لیے عدم تحفظ اور COVID-19 ۔ اس سے نمٹنے کے لیے حکام، سول سوسائٹی کے اراکین، نجی شعبے اور صحت کے کارکنوں کے ساتھ مل کر اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد، 24 اکتوبر 2021ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے روٹری انٹرنیشنل کی قیادت میں پولیو کے خاتمے کا دن 2021 منایا گیا۔ اس دن نے ڈبلیو ایچ او کو گزشتہ تین سالوں میں پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کیا۔ پولیو وائرس کے کیسز کی تعداد کو تاریخی کم ترین سطح پر لایا گیا تھا۔
جون 2021 میں گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹو (GPEI) نے 33 سال قبل 41 ویں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے پولیو کے خاتمے کی حکمت عملی 2022-2026 کا آغاز کیا۔ 1988 میں پولیو کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے، دنیا نے پولیو وائرس کی منتقلی میں 99.9 فیصد کمی حاصل کی ہے۔ اس کے باوجود پولیو کی تمام اقسام کو ختم کرنے کے لیے مسلسل چیلنجز باقی ہیں۔STOP پروگرام کی ٹیم کے اراکین بھی دیگر ویکسین سے بچاؤ کے قابل اور ابھرتی ہوئی متعدی بیماریوں جیسے خسرہ، زرد بخار، ہیپاٹائٹس بی، ہیضہ، ایبولا اور اب COVID-19 کے لیے قومی ردعمل کی حمایت کرنے کے لیے صف اول میں ہیں۔صحت عامہ کی ایک ایسی افرادی قوت کو تعینات کیا گیا جو 20 سال سے زیادہ عرصے سے پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی جنگ میں مصروف ہے۔ویکسین سے پولیو وائرس (CVDPVs) کے پھیلنے کو روکیں۔جو کہ کم یا غیر حفاظتی ٹیکوں والی کمیونٹیز میں ہو سکتا ہے۔
صحت عامہ کے پیشہ ور افراد کی بھرتی، تربیت، اور تعیناتی میں سی ڈی سی کی سرمایہ کاری، جہاں اور جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، ممالک کو ویکسین کی کوریج کو بڑھانے اور پھیلنے کا پتہ لگانے اور ردعمل کو بہتر بنانے کے لیے مضبوط حفاظتی نظام بنانے میں مدد کرتے ہیں۔
پولیو کے خاتمے کے لیے پولیو کی تمام اقسام کو ختم کرنے کے لیے ویکسین تک مساوی رسائی کی ضرورت ہے۔
کاروبار / خرید و فروخت