قارئین بھی سوچتے ہوں گے میں شاید اینٹی ڈیموکریسی ہوں مگر کیا کروں کہ روز ایسے دل دکھا دینے والے بیانات دیکھ دیکھ کر دل دکھتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے ہمارے وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے ملک کی آبادی کنٹرول کرنے کا انوکھا مشورہ دیا تھا کہ زیادہ بچے پیدا کرنے ہیں تو ایسے ملک چلے جائیں جہاں مسلمان کم ہیں۔پھر مفتاح اسماعیل صاحب نے پٹرول کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کرتے ہوئے قہقہہ لگا کر نوید سنائی کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ابھی ہم اس میں اور بھی اضافہ فرمائیں گے۔کل ان کا ایک اور بیان پڑھنا کہ ہم امپورٹڈ گاڑیاں اتنی مہنگی کر دیں گے کہ لوگ خرید ہی نہ سکیں۔
ایک سابق وزیر نے اپنے دعر حکومت میں ٹماٹر مہنگے ہونے پہ عوام کو مشورہ دیا تھا کہ ٹماٹر کھانا چھوڑ دیں۔ن لیگ کے احسن صاحب عوام کو چائے چھوڑنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ پیسے بچائے جا سکیں۔امپورٹڈ چیزوں پہ ویسے ہی پابندی اور لامحدود ٹیکسز لگا کر آپ عوام کی پہنچ سے دور کر چکے ہیں۔ان کی اس فرمائش یا فرمان نے دیوداس کا ڈائیلاگ یاد دلا دیا ۔اس میں کچھ ترمیم کر کے میرا سوال ان سے یہ ہے کہ آج آپ چائے چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں کل آٹا چھوڑنے کا کہیں گے اور پھر دنیا چھوڑنے کا تو کیا ہم سب حکم حاکم کی تکمیل میں اپنی جانیں قربان کر دیں؟
پیپلز پارٹی کے آغا سراج صاحب سندھی عوام پہ احسان فرماتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گئے اور ان کے زخموں پہ نمک پاشی کرتے ہوئے فرمانے لگے:” یہ سب آپ کے گناہوں کی سزا ہے۔” اور جب اس بیان پہ بیرسٹر احتشام نے اپنے پروگرام میں مدعو نثار کھوڑو صاحب سے بات کی تو وہ غصے میں یہ بھی بھول گئے کہ بیرسٹر احتشام ان کے کوئی کمی کمین یا پارٹی کارکن نہیں بلکہ ایک محترم بیرسٹر اور اینکر ہیں اور انہیں یہ تک کہہ دیا کہ تم ہمیں کاٹو گے تو ہم بدتمیزی کریں گے۔اور مجھ سے صرف میری بات کرو پیپلز پارٹی کی نہیں۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر پارٹی یا کسی پارٹی ممبر کو آپ اون نہیں کر رہے تو آپ کی ذاتی حیثیت کیا ہے کہ آپ سے کس حیثیت میں بات کی جائے۔
دنیا میں شاید واحد پاکستان ایسا ملک ہے جس کے وزراء کو عوام اور ملک کی فلاح وبہبود کی بجائے ذاتی مفاد زیادہ پیارا ہے۔انہیں ملک کی یا عوام کی مشکلات سے کوئی غرض نہیں ہے۔ورنہ وہ بجائے ایسے فضول بیان دینے کے اپنے فرائض کو پوری ایمانداری سے سرانجام دیتے۔اگر عبدالقادر صاحب اپنے محکمے کو چھوڑ کر عوام کو مسلم ممالک کا رہائشی ویزا دلوانے کی ایجنسی کھول لیں تو یقین مانیے عوام تن من دھن لگا کر سعودیہ، دوبئی، انڈونیشیا یا ملائشیا وغیرہ جانے میں سیکنڈ بھی نہیں لگائے گی۔اور آپ بھی فنڈز ہڑپ کر کے حرام کھانے سے بچ کر حلال کمائیں گے۔
اگر مفتاح اسماعیل ایک ہی بار آئی ایم ایف کے حکم پہ سرنگوں کر کے پٹرول 2000 روپے لٹر، بجلی، گیس 1000 فی یونٹ، اشیائے خوردونوش 1000 فی کلو، ٹیکسز 9سے 12 کی بجائے 100فیصد کر دیں تو عوام ایک ہی بار مہنگائی بم کے جھٹکے برداشت کر لیں گے یہ روز روز کی آنکھ مچولی تو نہ ہو گی۔امپورٹڈ گاڑیاں تو پہلے بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہی تھیں۔اب تو آپ نے اس کے بچے کے دودھ اور دوا پہ بھی بین لگا دیا ہے۔اور اس کا حقہ پانی بھی ایسے بند کروا دیا ہے جیسے کبھی شعب ابی طالب میں کبھی کفار مکہ نے مسلمانوں کا کیا تھا۔
عذاب ہمیشہ ان قوموں اور مقامات پہ آیا کرتے ہیں جہاں اللہ کی نافرمانی ہو۔حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے لیا جائے۔جہاں شراب، ناچ گانا، عمل قوم لوط، زنا، ناپ تول میں کمی، چوری ڈکیتی، قتل و غارت، دھوکہ، سودی کاروبار، زکوۃ کی ادائیگی سے پہلوتہی برتی جائے۔غریب پہ ظلم روا رکھا جائے اور مجرم امراء کو مکمل تحفظ دیا جائے۔یہ دو دو ٹکے کے غریب عوام یہ سب کچھ ہی تو کر رہے ہیں تو عذاب کے مستحق تو ہوئے نا!
اور سراج صاحب بالکل ٹھیک فرمایا رہے تھے۔ہم نےان سب نام نہاد سیاستدانوں، جمہوری عوامی نمائندوں کے نام کی جونکوں کو ووٹ دے کے اپنے سر پہ مسلط کر لیا ہے۔یہ اس کبیرہ گناہ کی سزا ہے جو ہم بھگت رہے ہیں۔ہم جیسے گناہگار ان جیسے پاک صاف باعمل باشرع مسلمان وزراء کے قابل کہاں تھے یہ تو ان سب کا احسان ہے کہ ہمارے نام پہ دنیا بھر سے چندہ اکھٹا کر کے وہ اپنے وطن دوبئی، انگلینڈ، سوئٹزرلینڈ اور امریکہ میں جائیدادیں اور بینک اکاوئنٹس بھر رہے ہیں۔ایسے وزراء جو پارلیمنٹ لاجز میں شہداور زیتون کا تیل پیئں۔خواتین کو اپنے کمروں میں عملی تعلیم دیں۔ صفائی کا اتنا خیال رکھیں کہ پیسے بھی دھو کے رکھیں ان جیسی معصوم ہستیاں پاکستانی عوام ڈیزرو ہی نہیں کرتی تھی۔
میری ان سب عظیم ہستیوں سے مودبانہ درخواست ہے کہ آپ اس گناہگار، بے وقوف، کم عقل، بدکردار عوام سے جان چھڑوا کر فورا سے پیشتر اپنے اپنےوطن لوٹ جائیں ایسا نہ ہو کہ کہیں آپ جیسے معصوم ہماری وجہ سے آئے عذابوں کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔ بلکہ ملک کے کچھ علاقے امریکہ کو مفت میں دینے کی بجائے پورے پاکستان کو ایک ہی بار امریکہ کے ہاتھ بیچ کر اس کے پیسے کھرے کریں اور اپنا اپنا حصہ لے کر اپنے اپنے ملکوں میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں اور آرام فرمائیں۔ہم امریکہ کے ان دیکھے غلام بننے کی بجائے اس کے مستقل غلام بننا برداشت کر لیں گے۔کم از کم اس صورت میں ہم ترقی یافتہ ملک کے شہری بن کر بنیادی ضروریات زندگی کو تو نہیں ترسیں گے۔اور نیلے پاسپورٹ پہ جہاں کہیں جائیں گے تو ذلیل تو نہیں ہوں گے نا۔
اللہ تعالٰی ہمیں ان سب عذابوں خصوصا اس عذاب سے نجات دلائے جو ہم نے خود جمہوریت کے نام پہ اپنے سر پہ مسلط کر لیا ہے۔