اپنے خیالات اور جذبات کو تخیل کی مدد سے ایک منفرد انداز میں لفظوں اور جملوں کی صورت میں لکھنے والے کو مصنف اور لکھاری کہتے ہیں۔ لفظ مصنف جو چار حروف پر مشتمل ہے، لکھاری کی خوبیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ جیسا کہ م سے مراد “محنتی”، ص سے “صاف گو”، ن سے “نڈر” اور ف سے “فرائض نبھانے والا”۔ ایک مصنف اپنے قلم کا استعمال کر کے حق کو حق اور جھوٹ کو جھوٹ لکھتا ہے۔ ایک سپاہی اور مصنف میں زیادہ فرق نہیں ہوتا کیوں کہ جب ایک سپاہی اپنے ہتھیاروں کے ساتھ سرحدوں پر اپنے وطن عزیز اور اس کے باشندوں کی حفاظت کر رہا ہوتا ہے تو ٹھیک اُسی وقت ایک مصنف اپنے قلم کی مدد سے معاشرے میں پھیلتی برائیوں کا سدباب کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ جب کبھی معاشرے میں ہر طرف برائی اور بدامنی کے سیاہ بادل منڈلانے لگتے ہیں اور گردشِ ایام کے ستائے ہوئے لوگ اپنی بہت سی تمنائے خام پر ماتم زدہ ہوتے ہیں تو تب ایک مصنف کے الفاظ آفتاب بن کر ابھرتے ہیں اور برق تجلی کی مانند لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔
اپنے معاشرے کی اصلاح کے لیے یہ مصنف اکثر ڈرامے یا ناول کا کوئی ایسا کردار لکھ ڈالتا ہے جس سے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔ ایک مصنف اپنے الفاظ کی مدد سے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے۔ وہ اپنے الفاظ کی مدد سے لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ مصنف کے الفاظ میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو مزاح نگاری کر کے قارئین کو ہنسا دے اور اگر چاہے تو اپنی تحریر سے قارئین کو سنجیدہ کر دے۔ مصنف کے اس دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد بھی اس کے الفاظ روشن رہتے ہیں اور صدقہ جاریہ بن جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ ایک مصنف کسی بھی معاشرے کا اہم ستون ہوتا ہے۔
ایک مصنف اپنے قلم سے جہاد کرتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اگر قلم اور قلم سے لکھنا کوئی معمولی فریضہ ہوتا تو ربِ کائنات کبھی قرآن پاک میں اس کی قسم نہ اٹھاتا۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں قلم کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!!