جب سے ماہ ربیع الاول کا آغاز ہوا ہے ۔ایک مضمون لکھنا چاہ رہی تھی۔مگر کچھ مصروفیت کیوجہ سے اور کچھ خدشات کیوجہ سے نہیں لکھ پائی۔جب کوئی بہت اہم کام ہو تو وقت تو خیر نکالا جا سکتا ہے لیکن میرے مضمون پہ اکثریت بنا سوچے سمجھے اعتراضات کرے گی۔اور بنا کسی نص کے حوالے کے میرے نص سے ثابت شدہ مضمون پہ الزامات کا انبار لگا دے گی اس لئے کچھ سستی دکھا دی۔مگر آج کچھ ایسی پوسٹس پڑھنے اور کچھ ویڈیوز دیکھنے کا اتفاق ہوا تو رہا نہیں گیا۔اور سوچا ہمت کر کے لکھ ہی دوں۔تو مضمون حاضر ہے صرف ایک درخواست کرنی ہے اسے پڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ میرا کسی فرقے، مسلک یا مکتبہ فکر سے تعلق نہیں ہے۔میں سیدھی سیدھی قرآن و حدیث اور پھر ان علماء کرام کی رائے پہ عمل کرنے والی مسلمان ہوں جن کی رائے قرآن و سنت کیمطابق ہو۔مجھ پہ وہابی، سلفی، اہلحدیث ہونے کا ٹیگ لگانے کی بجائے اگر آپ مجھے مسلمان سمجھ کر اسے پڑھیں گے تو میں بیحد مشکور ہونگی۔
عنوان مضمون ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت میں ان کا،میلاد منانا۔سب سے پہلے جو لوگ اسے مناتے ہیں ان کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
” آپ اپنے بچوں کی سالگرہ تو منا لیتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔
ہم تو ان سے محبت کرتے ہیں جو میلاد نہیں مناتے وہ تو ہیں ہی کافر لعنتی۔
ہم بارہ وفات کیوں منائیں یہ تو وہ منائیں جو سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہو چکا۔ہمارے نبی تو زندہ ہیں ہم تو انکی سالگرہ ضرور منائیں گے۔”
ایسے بچکانہ دلائل کی بھرمار ہے۔اگر ذرا سی عقل استعمال کیجائے تو کوئی بھی مسلمان ان کا رد کر سکتا ہے۔سالگِرہ منانا اسلام کی رو سے جائز نہیں۔کیونکہ یہ عیسائیوں کا رواج ہے اور ہمیں منع فرمایا گیا ہے کہہ انکی مشابہت اختیار کریں۔
” جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔” ابو داؤد 4031
نہ اپنی نہ بچوں کی نہ ہی کسی اور کی سالگرہ منانا جائز ہے جو لوگ ایسا کرتے ہیں غلط کرتے ہیں ان کے غلط فعل کی بنیاد پہ ایک اور غلط فعل سرانجام دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟
جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ میلاد نہیں منایا تو کیا ہم نعوذ باللہ ان سے زیادہ پکے اور باعمل مسلمان و عالم ہیں کہ ہم نے اسے منانا اہم بنا لیا ہے؟منائیے ضرور منائیں مگر اس طریقے سے جیس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود منائی ہے اگر آپ کو علم ہو تو وہ ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے پوچھنے پر فرمایا میں پیر کے دن پیدا ہوا تھا اس لئے بطور شکرانہ روزہ رکھتا ہوں۔ مسلم کتاب الصیام 819۔
تو روزہ رکھتے ثواب بھی پائیے سنت بھی پوری کیجئے اور میلاد بھی منائیے۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیسوں احادیث مل جائیں گی جہاں سوال پر فرمایا.
“اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو سجدوں کی کثرت کرو۔” مسلم
” بھوکے کو کھانا،کھلاو۔” ترمذی
” یتیم کی کفالت کرو۔”مسلم 1592۔بخاری
اور بہت سے اعمال کرنے کا حکم دیا مگر یہ نہیں فرمایا کہ بڑی سی محفل منعقد کرنا لاوڈ اسپیکر ٹینٹ لگانا گانوں کی ٹیونز والی نعتیں پڑھنا، نماز،چھوڑ دینا،مگر محفل میلاد نہیں، جلوس نکالنا جس میں ہندووں اور عیسائیوں کیطرح ( جیسے وہ اپنے الہ اور بتوں کو اٹھائے پھرتے ہیں )میری مسجد اور کعبہ کے ماڈلزبنا کر گھومنا اور پورا دن اور پوری رات مسجد کے لاوڈ اسپیکر پہ نعتیں گا گا کر لوگوں کو نہ کوئی کام کرنے دینا نہ آرام نہ سونے دینا چاہے کوئی بیمار ہی کیوں نہ ہو، انواع و اقسام کے کھانے کھانا اور وہ ساری سنتیں بھول جانا جن میں میں نے نماز مختصر کر دی صرف اس لئے کہ خواتین کے چھوٹے بچے رو رہے تھے اور مرد کام کیوجہ سے تھکے ہوئے تھے۔قرآن کی بلند تلاوت نہیں کی کہ لوگوں کی نیند نہ خراب ہو، کعبے سے بت ہٹائے، ننگے طواف کرنے سیٹیاں تالیاں گانے بجانے سے منع فرمایا کیونکہ یہ سب جاہلانہ باتیں تھیں۔
اللہ تعالٰی قرآن پاک میں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیث کے ذریعے فرماتے ہیں۔
کسی پہ لعنت نہ بھیجو۔ مسلم کتاب الزہد۔داود کتاب الادب
یہاں کسی پر بھی کالفظ ہے کجا کہ آپ مسلمانوں پہ ہی لعنت بھیج رہے ہیں۔وہ بھی ایک بدعت کے نہ کرنے ہر۔اور اگر اس حدیث کو پڑھیں تو اتنی سخت وعید ہے کہ بندہ کبھی ایسا نہ کہے کیونکہ فرمان رسول یے کہ اگر بندہ اس لعنت کا مستحق نہ ہو تو لعنت بھیجنے والے پر پلٹ آتی ہے۔
اگلا جواز ہے کہ ہم تو بارہ وفات اس لئے نہیں مناتے کہ ہمارے نبی تو قبر میں زندہ ہیں۔ تو جناب یہاں آپکو ذرا اپنی اس نہایت بھونڈی دلیل پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔پہلی بات تو یہ کہ اگر آپ اپنے والدین، اولاد،دوست رشتےدار یا کسی بھی اجنبی شخص کو زندہ قبر میں دفن نہیں کرتے تو کیا نعوذ باللہ صحابہ کرام اپنی محبوب ترین ہستی کو زندہ قبر میں دفن کر سکتے تھے؟؟؟چلیے اسے بھی چھوڑیے۔جو لوگ سیرت النبی پڑھ چکے ہیں وہ اس بات سے واقف ہونگے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وفات سے پہلے فاطمہ رضی اللہ کے کان میں کچھ کہا تو وہ رو پڑیں پھر کچھ کہا تو وہ ہنس دیں۔دریافت کرنے پہ فرمایا۔
” پہلے انہوں نے مجھے اپنی وفات کے بارے میں بتایا پھر فرمایا کہ میں جنت کی خواتین کی سردار ہونگی۔” بخاری و مسلم
جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہوا تو بو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
” اگر تم میں سے کوئی شخص محمد کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے ان کی وفات ہو چکی۔اور اگر کوئی اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ باقی رہنے والا ہے۔وہ کبھی مرنے والانہیں ۔محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول ان سے پہلے بھی گزر چکے۔پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو کیا تم اسلام سے پھر جاو گے۔اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گااور اللہ عنقریب اپنے شکرگزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔” آلہ عمران 144
ایک اور آیت قرآن سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ سب انسان فوت ہونگے اور چونکہ انبیاء بھی انسان تھے تو ان کا بھی انتقال ہوا اسی لئے انکی قبریں موجود ہیں۔
” ہر نفس موت کا ذائقہ چکھے گا۔” آل عمران 185
شہید بھی مرتا ہے تو جنت میں جاتا ہے۔انبیاء کیلئے برزخ کی زندگی نہیں انکی ارواح شہدا کیطرح ڈائریکٹ جنت میں جاتی ہیں ۔تو کہیں آپ ان دو آیات اور تمام احادیث بخاری و مسلم کا انکار کر کے گستاخی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ؟ذرا غور فرمائیے۔
اب ذرا اس میلاد النبی کی تاریخ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔کہ یہ کب اور کس نے شروع کیا۔
اس سلسلے میں مختلف روایات ہیں جن کیمطابق عباسیوں یا فاطمیوں نے اس کا آغاز بغداد میں کیا۔الخزرون بنت عطا عباسی نے اسے منانا شروع کیا۔ابن جبیر کہتے ہیں کہ ہر ربیع الاول کے تیسرے پیر کو میلاد النبی منایا جاتا تھا۔مصری مورخ مکریزی کیمطابق اس کا آغاز 1122 میں ہوا۔مظفرالدین گوکبوری، جو کہ صلاح الدین کا برادر نسبتی تھا، نےایبرل موجودہ عراق میں اس کا آغاز کیا ۔
یاد رکھیے حقیقی اسلامی تہواروں یعنی عیدیں اور حج کے اوقات اور عمل و افعال میں کوئی ابہام نہیں سب جانتے ہیں کہ رمضان کیبعد یکم شوال کو عیدالفطر۔اور دس ذی الحج کو عید الاضحٰی ہوتی ہے۔لیکن یہ کیسا اسلامی تہوار ہے جس کے آغاز کے بارے میں کوئی مستند تاریخی حوالہ نہیں ہے۔اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش کے تقریبا 400 سال بعد اس کا آغاز کسی عالم نہیں کیا بلکہ عام انسان نے کیا۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی صحابی نے تابعی یا تبع تابعی نے کبھی اس سلسلے میں سوچا بھی نہیں نہ ہی بات کی۔
جب اس کاآغاز ہوا تو صرف اجتماعات میں قرآن پڑھنے یا نعت پڑھنے کا سلسلہ ہوتا تھا آہستہ آہستہ اس میں اتنی خرافات شامل ہو گئیں کہ میلادالنبی کرسمس اور رام لیلی کے جلوسوں میں تفریق کرنا مشکل ہو گیا۔کچھ سال پہلے تک پاکستان میں بھی اس کا اتنا رواج نہیں تھا جتنا آج ہے۔اسلام دین فطرت ہے ۔یہ ایسے کسی عمل کا نہ تو حکم دیتا ہے نہ ہی توقع رکھتا ہے جس کیلئے ایک عام انسان استطاعت نہ رکھتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ حج اور زکاہ بھی صرف صاحب استطاعت مسلمانوں پر فرض ہیں۔اب ذرا غور فرمائیے جو مسلمان غریب ہیں اور ان سب محافل، مجالس اور اشیا کا اہتمام نہیں کر سکتے تو کیا وہ مسلمان نہیں یا وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت نہیں رکھتے؟ ہرگز نہیں۔ہر مسلمان ان سے محبت کرتا ہے لیکن وہ صرف اسی صورت میں نبی کریم صلی اللہ و علیہ و آلہ و سلم کی محبت کا،حقدار ٹھہرے گا جب ان کی سنتوں پہ عمل پیرا ہو گا ان کے نقش پا پہ چلے گا( کیونکہ نقش پا پیروی کرنے کیلئے ہے نا کہ نعلین کا نقش ماتھے، سینے پہ سجانے کیلئے ہے)۔
ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ و علیہ و آلہ و سلم سے اپنی محبت کاثبوت اس طریقے سے دیں جو خود انہوں نے سکھایا ہے۔یعنی ان کی جیسے اعمال کر کے۔ان کی سنتوں پر عمل کر کے۔انکی سنتوں کا احیاء کر کے۔کیونکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے۔کہ حوض کوثر پہ میری امت کے چند لوگ آئیں گے جن کے اعضاء وضو چمک رہے ہونگے۔جب میں انہیں حوض کا پانی پلانے لگوں گا تو فرشتے مجھے یہ کہہ کر روک دیں گے کہ یہ بدعتی( دین میں کسی نئے کام کی ایجاد کرنا اور پھر اسے اس نیت سے کرنا کہ ثواب ہو گا۔)ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنتوں کو پڑھنے جاننے اور ان پر عمل کرنے اور انہیں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے اور حوض کوثر پر ان کے ہاتھ سے پانی پلائے۔آمین