اماں! اماں! بھابھی کو پھر جن پڑ گیا ہے۔” عاتکہ چلائی تو اماں اور اس کی بہن رانیہ بھاگی ہوئی بھابھی کے کمرے کی طرف بھاگیں۔جونہی یہ آواز ہمسائی نے سنا وہ چادر اٹھا کر باہر کو لپکی اور آس پڑوس کی خواتین کو اطلاع کر دی جلد ہی مشہود کے گھر میں خواتین کا ہجوم اکھٹا ہو گیا۔خولہ بھابھی باہر رکھے تخت پہ بیٹھی جھوم رہی تھیں۔بکھرے بال دوپٹہ ندارد وہ خاصی جلالی شکل بنائے سب خواتین کو گھور رہی تھیں اور سب مودبانہ بیٹھیں ان کے اشارے کی منتظر تھیں۔آخر انہوں نے ایک ہمسائی کو اشارے سے بلایا تو وہ جلدی سے تخت کے نزدیک پہنچی زمین پہ بیٹھ کے اپنا مسئلہ بیان کرنے لگی۔خولہ نے سن کر منہ میں کچھ الفاظ بدبدائے۔جو ناقابل سماعت تھے۔مگر ہمسائی خوش ہو گئی کہ اب اس کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔سب خواتین اپنے مسئلے بیان کر چکیں تو جن صاحب بھی واپس چلے گئے۔خولہ چکرا کر تخت پہ گری اور سو گئی۔
اسی اثناء میں عاتکہ کی دوست خجستہ جو کہ ان کے ہمسائے میں نئی نئی شفٹ ہوئی تھی اس سے کالج کے کسی کام کا پوچھنے آئی تو خواتین کو دیکھ کر حیرت سے عاتکہ سے سوال کیا:” یہ سب یہاں کیوں جمع ہیں؟”
” دراصل میری بھابھی کو جن پڑتا ہے تو یہ سب ان سے دعا کروانے آتی ہیں۔”
” ہیں! اب یہ کیا ڈرامہ ہے بھئی؟” خجستہ نے تعجب سے پوچھا:” آج کل کے دور میں بھی تم ان سب باتوں پہ یقین رکھتے ہو؟”
” ارے تمہیں نہیں پتہ جب بھابھی کو جن پڑتا ہے نا تو وہ پوری دیگ اکیلے اٹھا لیتی ہیں۔اتنا کھاتی ہیں کہ پورا خاندان کھا جائے۔” عاتکہ نے وضاحت پیش کی تو خجستہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:” اچھا تو اس کا مطلب یہ کہ یہ سب جن کرتا ہے۔اچھا ایسا کرنا اگلی بار جب جن صاحب آئیں تو مجھے ضرور بلانا۔ابھی تو تم مجھے ذرا اپنی انگلش کی نوٹ بک دے دو مجھے سمری لکھنی ہے۔” نوٹ بک لیکر خجستہ گھر پہنچی تو ماموں کو بیٹھے پایا۔
” ماموں! آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں عاتکہ کی بھابھی کو جن پڑتا ہے اور سارے محلے کی خواتین ان سے دعا کروانے جاتی ہیں۔” اس نے اشتیاق سے ماموں کو خبر دی تو ماموں نے مسکراتے ہوئے کہا:” یقینا اس کی ساس نندیں اسے تنگ کرتی ہوں گی اور اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑتا ہو گا اور سادہ لوح خواتین اسے جن سمجھ لیتی ہوں گی۔تم توجہ مت دو ان فضول باتوں پر۔” یہ کہہ کر وہ بہن سے باتیں کرنے لگے اور خجستہ اپنا کالج کا کام کرنے لگی۔اتفاق کی بات ہے کہ ایک ہفتے بعد عاتکہ کے ماموں کے گھر قرآن درس تھا جہاں خجستہ اور اس کی امی بھی مدعو تھیں۔جب درس ختم ہو گیا تو اچانک خولہ بھابھی کھڑی ہوئیں اور آسمان کی طرف انگلی کر کے چکرانے لگیں۔عاتکہ نے خجستہ کے کان میں سرگوشی کی :” جن آ گیا ہے۔” سب خواتین خاموش اور مودب ہو کر بیٹھ گئیں۔اتنے میں خولہ بھابھی نے بھاری آواز میں خجستہ کو پکارا:” خجستہ! ہمیں پتہ ہے کہ تمہارا ماموں ہمارا مذاق اڑاتا ہے۔اسے بتا دو ہم بڑے پہنچے ہوئے جن ہیں جو کوئی ہمارا مذاق اڑائے ہم اسے تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔” یہ سن کر خجستہ نے ہنسی دباتے ہوئے عاتکہ کے کان میں سرگوشی کی:” ہی!ہی! بڑا پہنچا ہوا جن ہے جسے ہی بھی پتہ نہیں کہ ماموں نے نہیں میں نے اس کا مذاق اڑایا تھا۔” عاتکہ نے اس کا ہاتھ دبا کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔اب خواتین نے باری باری اٹھ کر جن صاحب کے سامنے اپنے مسائل پیش کیے اور جن صاحب نے ناقابل فہم غراہٹوں کے ساتھ ان کا حل بیان کیا۔اسی دوران جن صاحب نے نعرہ لگایا:” ہم کھانا کھائیں گے۔” اور عاتکہ کی ممانی نے فورابریانی کی دیگ کھلوا کر بوٹیوں اور چاولوں سے ڈش بھر کر خولہ کے آگے سجا دی۔خولہ نے بوٹیوں پہ ہاتھ صاف کرنے کے بعد تھوڑے چاول کھائے اور پھر کمرے میں جا کر دراز ہو گئی۔اس کا مطلب تھا کہ جن اب رخصت ہوا۔
” عاتکہ ! یار تم لوگ بھی کتنے سادہ ہو۔تمہاری بھابھی کو جن شن نہیں بلکہ وہ یہ سب حالات سے فرار کے لیے کر رہی ہیں۔” خجستہ کے کہنے پہ عاتکہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا:” کیا مطلب ہے تمہارا؟”
” اچھا ایک بات سچ سچ بتانا تمھارے بھائی بہن اور امی کا رویہ کیسا ہے بھابھی کے ساتھ؟”
” امی تو انہیں بالکل بیٹیوں کی طرح چاہتی ہیں ہاں مشہود بھائی ذرا سخت طبیعت کے مالک ہیں۔”
عاتکہ کے جواب پہ خجستہ مسکرائی:” دیکھا میں نے کہا تھا نا وہ یہ سب جان بوجھ کر کرتی ہیں۔اب تم ہی بتاؤ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جن ہڈی اور گوبر کھاتے ہیں تو یہ کون سا جن ہے جو بریانی کی ڈش ہضم کر جاتا ہے۔پھر جن صاحب واضح الفاظ میں خواتین کو کیوں نہیں بتاتے کہ کیا کرنا ہے۔یونانی معبدوں کی طرح مبہم الفاظ میں کیوں بولتی ہیں۔رہ گئی بات اکیلے دیگ اٹھانے کی تو جب بندہ غصے میں ہوتا ہے تو ہارمونز کی وجہ سے اس میں کئی گناہ زیادہ طاقت آ جاتی ہے۔ویسے بھی 8-10 کلو کی دیگ اکیلے اٹھانا کچھ مشکل بھی نہیں۔” خجستہ جو کہ بی اے میں سائیکالوجی پڑھ رہی تھی اس نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا۔” تم لوگ بھائی کو کہو ان کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کریں۔اور میں شرط لگا کر کہتی ہوں کہ یہ جن کبھی بھی نہیں آئے گا۔” عاتکہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا:” میں اماں سے بات کروں گی کہ وہ بھائی کو سمجھائیں ۔دیکھتے ہیں تمہارا سائیکالوجیکل اینیلسئس کتنا درست ہے۔”
اور پھر واقعی ہی خجستہ کی بات درست ثابت ہوئی ۔اماں کے سمجھانے پہ مشہود بھائی نے خولہ کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا شروع کر دیا تو محلے کی خواتین جن کی منتظر ہی رہیں مگر جن پھر نہ آیا۔چھ ماہ بعد خجستہ نے کالج کی کینٹین میں کولڈ ڈرنک پیتے ہوئے پوچھنا:” ہاں بھئی مانتی ہو مستقبل کی سائیکاٹرسٹ مس خجستہ کو۔کیسا جن بھگایا میں نے۔” عاتکہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا:” جناب میں کیا میرے تو پورے گھر والے آپ کے معترف ہو گئے ہیں۔میں تو سوچ رہی ہوں اب محلے والیوں کو تمہارے گھر کی راہ دکھا دوں تاکہ ان کے مسائل بھی حل ہوں۔”
” ہا! ہا! ہا!” خجستہ نے قہقہہ لگایا۔