اکثر مغرب والے اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو قید کردیا ہے اور اسکے حقوق غصب کر لیے ہیں ۔اور عورت ایک باندی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ہم نے اپنی عورت کو آزادی دی ہے وہ ہر معاملے میں آزاد ہے ۔اور ہماری مسلم خصوصا مشرقی خواتین اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اپنے آپ کو مظلوم ترین مخلوق سمجھتی ہیں ۔الحمدللہ میں ایک مسلمان عورت ہوں۔اور یہ اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ جتنے حقوق اسلام نے ہمیں1400 سال پہلے دئیے ہیں اتنے 2020 میں بھی کسی مغربی خاتون کو حاصل نہیں نہ ہی کبھی ہونگے۔ اللہ تعالٰی نے پوری ایک سورت النساء عورتوں کے لیے نازل فرمائ ی۔ سورہ نور اور دوسری بہت سی سورتوں میں عورتوں کے حقوق پر بات کی۔
آئیے پہلے قرآن و حدیث کی روشنی میں انکا جائزہ لیتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے اور حکمرانوں نے کیسے ان احکام پر عمل کیا اور انکا نفاذکیا۔
اسلام کہتا ہے کہ والدہ کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔اگر اولاد والدین کی خدمت کرے گی تو اس کے لیے جنت کی بشارت ہے
۔سورہ البقرہ آیت 83 :
“والدین ، رشتے داروں، یتیموں مسکینوں سے نیک سلوک کرو۔”
النساء 36
” ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو”
سورہ بنی اسرائیل 23-24
والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔اگر ان دونوں میں ایک یا دونوں تیرے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو۔اور نہ انہیں جھڑکواور ان سے نرمی سے بات کرواور محبت سے انکے سامنے جھک جااور ان کیلئے دعا کرو یہ کہہ کر: اے رب! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔”
سورہ لقمان14
“ہم نے انسان کو اسکے والدین کے بارے میں اچھا سلوک کرنے کی وصیت کی۔اس کی ماں نے اسے کمزوریوں میں اٹھایا اور دو سال تک دودھ پلایا۔میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو تم کو میری طرف ہی لوٹنا ہے۔”
حدیث میں ماں کا رتبہ کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
“ایک شخص نے دریافت کیا “اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے۔آپ نے فرمایا :” تیری ماں “۔
پھر عرض کی “اسکے بعد؟ ” فرمایا” تیری ماں ” ۔
عرض کی ” پھر اسکے بعد؟ ” اپ نے فرمایا “تیری ماں “۔
کہا” پھر کون؟” فرمایا ” تیرا باپ ”
صحیح مسلم کی حدیث ہے۔
” بیشک اللہ نے تم پر ماوں کی نافرمانی، کنجوسی بھیک اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا حرام قرار دیا ہے “۔
بخاری کی حدیث میں ہے ۔
” کیا میں تمھیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ لوگوں نے عرض کی۔کیوں نہیں یا رسول اللہ ۔آپ نے فرمایا ” اللہ کا شریک بنانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔”
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا ” اللہ کو کون سا عمل محبوب ہے؟فرمایا” والدین کی فرمانبرداری “۔
انکی تفسیر اور شرح کی ضرورت ہی نہیں ۔احکام واضح ہیں ۔یہاں صرف باپ کا ہی نہیں ماں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔بلکہ حدیث میں تو ماں سے حسن سلوک کی تاکید تین بار کر کے اسکی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ بطور بیوی عورت کو کیا حقوق دیئے گئے ہیں ۔
النساء 4
” عورتوں کو انکے مہر خوشی سے ادا کرو”
البقرہ 228: ” اور عورتوں کا حق ایسا ہی ہے کہ جیسے دستور کے مطابق مردوں کا عورتوں پر ہے”
النساء 19
” اور عورتوں سے معروف طریقے سے نباہ کرو۔”النساء 19
النسا 20:” تم نے ان کو بہت سا مال بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو”
” مرد عورتوں کے کفیل ہیں۔اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مالوں میں سے خرچ کرتے ہیں “النساء 34
“اگر تمھیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی سے نکاح کرو۔”النساء 3
جو عورتیں تمھیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔دو، تین اور چار سے۔اور اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو ایک ہے پر اکتفا کرو۔”النور 32
اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں نیک غلام اور لونڈیوں کے نکاح کر دیا کرو۔”البقرہ 222
“اور یہ کہ تم دو بہنوں کو نکاح میں اکھٹا نہ کرو۔ “النساء 23
” حیض کی حالت میں ان سے الگ رہو۔اور ہمبستری نہ کرو جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جائیں ۔”البقرہ 222
” تمھارے لیے حلال نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن جاؤ اور اس مقصد سے روکو کہ جو مہر تم دے چکے ہو اسکا کچھ حصہ واپس لے لو۔”النساء 20
” اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری لانا چاہو اور تم نے انکو بہت سا مال دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔”
الطلاق 1،2،6،7
” جب تم انہیں طلاق دو تو گھر سے نہ نکالو”
“عدت پوری ہو جائے تو معروف طریقے سے جدا کرو”
” تم انہیں رہائش دو جہاں تم رہتے ہو اپنی حیثیت کے مطابق اور انکو تنگ کرنے کیلئے انہیں تکلیف نہ دو۔ حمل والیاں ہوں تو وضع حمل تک تم ان پر خرچ کرنا۔پھر اگر وہ تمھارے بچے کو دودھ پلائیں تو تم انکو اجرت دو۔آپس میں دستور کے مطابق مشورے سے طے کر لو۔اگر تم باہم ضد پکڑ لو تو اسے کوئی اور عورت دودھ پلائے۔ پس لازم ہے کہ وسعت والا اپنی وسعت کیمطابق خرچ کرے۔اور جس پر رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اسی میں سے خرچ کرے۔”
البقرہ 233
” اور مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں ۔یہ اسکے لیے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔باپ کے ذمے ہے کہ ماؤں کو دستور کے مطابق کھانا اور کپڑا دے۔۔۔۔۔نہ ماں کو اسکے بچے کی وجہ سے تکلیف دی جائے نہ باپ کو۔۔۔۔۔۔اگر باپ مر جائے تو اسکے وارث کا ذمہ ہے۔۔۔۔۔اگر تم ارادہ کرو کہ اپنی اولاد کو کسی اور عورت سے دودھ پلواو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ۔جب کہ تم اس کے معاوضہ کی ادائیگی کرو۔”
البقرہ 234
عرب عموما اپنے بچوں کو شہر سے باہر آیا کے ساتھ بھیج دیتے تھے۔اور مائیں کم ہی اپنے بچوں کو دودھ پلاتی تھیں ۔جیسا کہ سیرت النبی سے پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حلیمہ سعدیہ کے حوالے کیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تقریبا 6 سال کی عمر می اپنی والدہ کے پاس واپس ائے تھے۔
” بیوہ 4 ماہ 10 دن انتظار کرے۔”
البقرہ 236
“اگر تم نے بغیر مہر مقرر کیے اور بغیر چھوئے انکو طلاق دے دی تو انہیں کچھ مال و متاع دے دو۔
البقرہ 240
” جو فوت ہو جائے ان پر بیویوں کے حق میں وصیت کرنا لازم ہے۔کہ انہیں خرچ دیا جائے۔اور انکو ایک سال تک گھر سے نہ نکالا جائے ۔پھر اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر گناہ نہیں ۔”
البقرہ 241
” جن عورتوں کو طلاق دی گئ ہو انہیں بھی دستور کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کرو۔”
اب دیکھتے ہیں احادیث اس سلسلے میں کیا کہتی ہیں ۔
“ولی کے بغیر نکاح نہیں ” الحاكم و ابن حبان
” مہر کے لیے کچھ تلاش کرو چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔”
ازدواج مطہرات کے مہر 400 یا 500 درہم تھے۔خدیجہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 20 اونٹ مہر دیا تھا ۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہر ایک زرہ تھی۔
” جن شرطوں کے ساتھ تم نے شرم گاہوں کو حلال بنایا ہے انہیں پورا کرنا دیگر شرائط کی بنسبت زیادہ ضروری ہے۔”
یعنی عورت مہر کے علاوہ بھی اگر کچھ نکاح کے وقت لکھوانا چاہے تو اسے بھی پورا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے ۔
” جب تو کھانا کھائے تو اسے بھی کھلا۔لباس پہنے تو اسے بھی پہنااور منہ پر نہ مار اور بددعا نہ دےاور اسے کسی اور گھر میں نہ بھیج۔” ابی داود
” جس کی دو بیویاں ہیں اور وہ ان میں سے کسی ایک کی طرف مائل ہو گیاتو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اسکا ایک پہلو گرا یا جھکا ہو گا۔” ترمذی
” کنواری کے لیے 7 دن اور بیوہ کیلئے 3 دن ہیں پھر معمول کیمطابق اپنی تمام عورتوں کی باری پوری کرے۔” مسلم
” اسلام میں شغار ( بدلے کا نکاح ۔وٹہ سٹہ) جائز نہیں ۔” مسلم
” مرد حمل سے بچنے کے لیے عزل نہ کرے۔شدید ضرورت کی وجہ سے عورت کی اجازت سے ایسا کر سکتا ہے۔” مسلم
محرمات یعنی ماں،نانی،دادی، خالہ، پھپھو، بیٹی، بہو، رضاعی بہن، بھانجی ، بھتیجی، بہن اور بیوی کی پہلے شوہر سے بیٹی، بیوی کی ماں نانی اور دادی، پوتی، نواسی سے نکاح جائز نہیں ۔النساء 22-23
” اے عائشہ! افلح کو گھر آنے کی اجازت دواسلیے کہ یہ تمھارا چچا ہے۔ابوالقعیس کی بیوی نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو دودھ پلایا تھا۔” بخاری و مسلم
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پھوپھی یا خالہ پر بھتیجی یا بھانجی کا نکاح نہ کیا جائے۔” بخاری و مسلم
” عورتوں کا حق تمھارے اوپر یہ ہے کہ لباس اور طعام میں انکے ساتھ اچھا رویہ اپناو۔” ترمذی
” جو تمھاری ذمہ داری ہیں ان پر پہلے خرچ کرو۔” نسائی
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں ” سب سے اچھا انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے”
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیک وقت 9بیویاں انکے ساتھ رہتی تھیں ۔اور ان سب کے پاس غلام اور لونڈیاں بھی تھیں۔اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کپڑے خود دھو لیتے، جوتے گانٹھ لیتے، بکری کا دودھ دوہ لیتے، کپڑوں پر پیوند لگا لیتے، ازدواج کو آگ جلا دیتے آٹا گوندھ دیتے۔ ان کے ساتھ کھیلتے ہنسی مذاق کرتے۔
بیٹی کو اس قدر عزت اور محبت دی گئی ۔کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے آتیں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھ کر اگے جاتے انکے ماتھے پر بوسہ دیتے ہاتھ پکڑ کر لاتے اپنی چادر بچھاتے اور اس پر اپنے پاس بٹھاتے ۔
عورتوں کا وراثت میں حصہ
“جو مال ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ کر مر جائیں، تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی یہ (اللہ ) مقرر کئے ہوئے حصے ہیں ۔” النسا7
“ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔۔۔۔۔۔ ماں کیلئے چھٹا حصہ ہے۔ ” النساء 11
” اگر تمھاری اولاد نہ ہو تو تمھارے ترکے میں تمھاری بیوی کا چوتھا حصہ ہے ۔اگر اولاد ہو تو آٹھواں حصہ ہے۔۔۔۔۔۔۔اگر بیٹا اور باپ نہ ہوں اور ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں کا چھٹا حصہ ہے ۔
البقرہ 282:” اگر دو مرد (گواہ) میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہ کے طور پر پسند کرو۔(یہ اسلیے) کہ ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔”
کیونکہ اکثر عورت اپنی جسمانی حالت (periods-pregnancy ) کی وجہ سے اور گھر کے کام کاج میں باتیں بھول جاتی ہے۔سو اس صورت میں دوسری اسے یاد کروا دے گی۔اس میں بھی ہماری ہی آسانی ہے۔
ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت ہر کام کرنے میں آزاد ہے۔خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک بزنس وومن تھیں جن کا مال تجارت مکہ کے مال تجارت کا آدھا ہوتا تھا۔عائشہ رضی اللہ عنہا ایک ایجوکیٹر، راوی حدیث اور فقیہ تھیں ۔ام سلمی کونسلر تھیں ۔عمر رضی اللہ عنہ کے بعد لکھا ہوا قرآن حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔الشفا بنت عبداللہ کو عمر رضی اللہ عنہ نے مارکیٹ مینیجر اور انسپکٹر بنایا۔ رفیدہ رضی اللہ عنہا بدر کی جنگ میں بطور نرس زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی رہیں ۔نسیبہ بنت سعد جنگ احد میں صحابہ کے ساتھ لڑیں ۔
عائشہ بنت محمد نے معروف علما کو پڑھایا جن میں حجر العسقلانی بھی شامل تھے۔انکے علاوہ حجر نے 53 خواتین علماء سے تعلیم حاصل کی۔7ویں صدی میں ام درداء حدیث و فقہ پڑھاتی تھیں ۔ 9 ویں صدی میں فاطمہ الفہریہ نے مراکش میں مسجد بنائ۔859 میں تیونس میں دنیا کی پہلی خواتین کی یونیورسٹی بنائUniversity of Qarawiyyin Fez. Morroco 10ویں صدی میں قرطبہ میں فاطمہ 70 لائبریریوں کی نگران تھیں جن میں 4 لاکھ کتب تھیں ۔10 ویں صدی میں سطیتہ المحملی بغداد میں ایک Mathematician ، حدیث، فقہ اور عربی ادب کی عالم تھیں ۔
11 ویں صدی میں بنفشہ الرمیہ نے اسکول، پل اور بے گھر لوگوں کے لیے شیلٹر ہومز بنائے۔15 ویں صدی میں حورم سلطان نے ترکی میں بہت سے ادارے بنوائے۔استنبول میں ایک مسجد کمپلیکس بنوایا جس میں مدرسہ، عوام کے لیے کچن اور حمام تھے۔مکہ میں 4 اسکول اور یروشلم میں مسجد بنوائی۔ دو اسکولز اور ایک خواتین کا ہسپتال بنوایا۔
خلیفہ ہارون الرشید کی بیگم زبیدہ نے بہت سے کنویں، نہریں کھدوائیں۔حجاج کیلئے مکہ جانے والے رستے کے ساتھ ساتھ گیسٹ ہاوسز بنوائے۔ ملکہ Zazzu آمنہ نے نائجیریا میں 34 سال بطور ملٹری جنرل کام کیا۔1819 سے 1924 تک بھوپال میں بیگم خورشید جہان حکمران رہیں ۔
لبانہ قرطبہ کی سائنس، حساب ، جیومیٹری اور الجبرا کی عالم تھیں اور جیومیٹری اور الجبرے کا مشکل مسئلہ بھی آسانی سے حل کر لیتی تھیں اموی خلیفہ الحکم کی پرائیویٹ سیکرٹری تھیں ۔انڈیا کی راسہ نے میڈیکل کی کتاب لکھی۔حلب کی ال اجلیہ بنت ال اجلی نے Astrolab بنائی۔مصر کی زینب الغزالی ایک activist تھیں ۔
آج کے دور میں بھی ہزاروں ایسی مثالیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ ہم ہر شعبہ ہائے زندگی میں کام کر رہی ہیں ۔دنیا کی پہلی مسلم فائٹر پائلٹ ترکی کی Sabiha Gokcen 1940میں تھیں ۔مسلم خواتین لیکچررز، پروفیسرز، ڈاکٹرز، سرجنز، سائنسدان، پائلٹس، فوجی، جنرلز، وزیر اعظم، نیوٹریشنسٹ، آرکیٹکٹ اور انجینر غرض ہر فیلڈ میں excel کر رہی ہیں ۔
اللہ تعالٰی نے نہ صرف ہمیں گھر ، پیسے، ضروریات زندگی، گواہی کا حق، پڑھنے جاب کرنے، بزنس کرنے، سیر و تفریح کرنے سب چیزوں کا حق دیا ہے۔ بلکہ ہمیں یہ سب چیزیں مہیا کرنے کی ذمہ داری ہمارے خاندان کے مردوں پر عائد کی ہے۔ باپ، بھائی، میاں، بیٹے ، چچا، ماموں، سسرالی مردوں اور اگر یہ سب نہ ہوں تو حکمران وقت کی ذمہ داری ہے ۔
اگر ہم بہت مالدار ہوں تب بھی ہم اپنے گھر کے مردوں کی ذمہ داری ہیں ۔انکا حتی کہ ہماری اولاد کا بھی ہمارے پیسے سے کوئی سروکار نہیں ۔اگر ہم نہ چاہیں تو انکو ایک پیسہ بھی نہ دیں۔(اگرچہ کوئی بھی خاتون اپنے اوپر خرچ کرنے کی بجائے اپنی فیملی پر خرچ کرنے کو ترجیح دیتی ہے)۔اگر عورت کی رضامندی نہ ہو تو نکاح فسخ ہو سکتاہے۔اگر عورت کو شوہر پسند نہ ہو تو وہ خلع لے سکتی ہے۔ اپنے ہی بچے کو دودھ نہ پلانا چاہے تو کوئی حرج نہیں شوہر کوئی آیا مہیا کرنے کا پابند ہے۔اگر اپنا ہی بچہ پیدا کرے اور اسکو دودھ پلائے تو اضافی خرچہ لے سکتی ہے اور مرد دینے کا پابند ہےاگر وہ سسرال کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اسے الگ گھر کا حق حاصل ہے۔کام نہ کرنا چاہے تو مرد کا کام ہے کہ میڈ مہیا کرے۔۔ماں ،بیٹی، بیوی، بہن بیوہ ہر رشتے کو نہ صرف ہر چیز دینے کا پابند ہے بلکہ انکی عزت و عصمت کا ذمہ دار بھی ہے۔اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کو پردہ کروائے اور اسے ایسی زندگی مہیا کرے کہ اسے کسی بھی چیز کے لیےگھر سے باہر نکلنے کی ضرورت نہ پڑے۔طلاق کی صورت میں پہاڑ برابر تحائف بھی دیے ہوئے ہوں کچھ واپس نہیں لے سکتا الٹا استطاعت کے مطابق کچھ دے کر رخصت کرنے کا حکم ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ نے ایک خاتون کو طلاق دی تو 10 ہزار درہم دیکر رخصت کیا۔اگر بچے ہوں تو انکا نان نفقہ رہائش بھی والد کی ذمہ داری ہے ۔ عدت کی مصلحت یہ ہے کہ بچے کی ولدیت پتہ چل جائے اور وراثت کا مسئلہ نہ ہو۔
پردے کے ذریعے اسلام نے ہمیں ایک ڈھال فراہم کی ہے جو ہمیں ہر بری نظراور فتنہ سے بچاتی ہے۔ قصہ مختصر اسلام ہمیں قیمتی متاع کی طرح ٹریٹ کرتا ہے۔اسے “رباط البیت ” گھر کی ملکہ کہتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں مغرب عورت کو کیسے ٹریٹ کرتا ہے۔ماضی میں تو ایک لمبی فہرست ہے جو انکی ذلت کی دلیل ہےانہیں جائداد میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔periods میں ایک اچھوت کی طرح ٹریٹ کیا جاتا تھا۔ پڑھنے، ووٹ اور طلاق کا حق نہ تھا۔ ۔ہم صرف آج کے دور کی عورت کا مقابلہ ایک مسلمان عورت سے کرتے ہیں ۔مغرب نے عورت کو ایک شو پیس بنا کر رکھ دیا ہے۔جس کا مصرف صرف مرد کی جسمانی تسکین ہے۔مرد اسکی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھاتا۔پہلے تو شادی کرتا نہیں کر بھی لے تو ہر چیز ہر خرچ آدھا عورت کے ذمے ہوتا ہے۔شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ بچے پیدا کر کے چھوڑ جاتا ہے اور عورت بیچاری اکیلی کماتی بھی ہے بچے بھی پالتی ہے اور گھر بھی سنبھالتی ہے۔ کوئی ایک لائف پارٹنر نہ ہونے کی وجہ سے باپ کا پتہ ہی نہیں ہوتا سو کوئی ذمہ داری بھی نہیں لیتا۔ بڑھاپے میں اولڈ ہوم میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔پھر بھی مشرقی عورت مغربی عورت کو آئیڈیلائز کرتی ہے۔قرآن پاک انسان کو بے صبرا اور ناشکرا کہتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔
اسلام نے تو عورت کو واقعی ملکہ کی حیثیت دی ہے یہ الگ بات ہے کہ دین سے دوری، قرآن و سنت سے لا علمی اور عمل نہ ہونے کی وجہ سے اور ہنود سے متاثر ہونے کی وجہ سے معاشرہ اور مرد ہمیں یہ تمام حقوق نہیں دیتا۔مگر اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ کچھ مغربی تجزیہ کار تو اسلام کو feminist مذہب بھی کہتے ہیں ۔کیونکہ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جو عورتوں کو حقوق دیتا ہے۔میری دعا ہے کہ معاشرہ بھی انکی ادائیگی میں اپنا رول اداکرے۔