ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی رہی
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
احمد ندیم قاسمی ایک ایسی شخصیت کے مالک تھےجو بہت زیادہ خوبیوں کا مجموعہ تھی، اوراردو ادب کے بہترین ناول و افسانہ نگار ڈرامانویس ،صحافی ادیب نقاد اور دانش ورہونے کے ساتھ ساتھ منفرد اسلوب کے صاحب طرز شاعر بھی تھے۔ یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے یہاں ہر بندہ سفر میں ہے جس کی منزل آ جاتی ہے،وہ اس دنیا فانی سے کوچ کر جاتا ہے ۔ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں 20؍نومبر1916ء کو پیدا ہوئے۔ اصل نام احمد شاہ اور اعوان برادری سے تعلق تھا،اورندیم ان کا تخلص تھا۔اپنے پردادا محمد قاسم کی رعایت سے ’’قاسمی‘‘ کہلائے، اِن کے والد پیر غلام نبی اور والدہ غلام بی بی تھیں۔
آپ کے والد پیر غلام نبی مرحوم ایک نیک سیرت، عبادت گزار زہد اور تقویٰ کے اعلی درجہ پر تھے ان تمام خوبیوں کی وجہ سے اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے۔ احمدندیم قاسمی نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی سے حاصل کی۔ 1920ء میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کے درس لیا کرتے تھے،پھر 1923ء میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور جاکر مقیم ہوگئے وہاں ان کو مذہبی، علمی اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔ 1921ء – 1925ء میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930ء-1931ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931ء صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہو گئے جہاں سے 1935ء میں بی اے کیا۔قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکل حالات سے دوچار رہی ۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو الودع کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کے رہنے سہنے اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کا کوئی ذریعہ نا تھا اسی وجہ سے کئی بار فاقہ کشی کرنا پڑی، لیکن ان کے اندر اتنی خود داری تھی،کہ انہوں نے کبھی ان حالات کا ذکر کسی بھی فرد واحد کے سامنے نہیں کیا،ہمیشہ صبروشکر کے دامن کو تھا مے رکھا ۔
انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی، تو اس نے گدڑی میں ہیرے کو پہچان لیا تھا اور اسی وجہ سے وہ انہیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ قاسمی صاحب اختر شیرانی کی شاعری کے گرویدہ تو پہلے ہی سے تھے، ان کے مشفقانہ رویے نے قاسمی صاحب کو ان سے شخصی طور پر بھی بہت قریب کر دیا۔ اختر شیرانی رندبلانوش تھے لیکن ان کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کے باوجود قاسمی صاحب نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ان کی طبیعت میں لاابالی پن آیا۔ اس سے ان کے مزاج کی استقامت اور اپنے آپ پر قابو رکھنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اختر شیرانی کی شاعری اور شخصیت سے قاسمی صاحب کا لگاؤ آخر تک رہا۔
اسی دوران احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انہیں اپنے ماہانہ رسالے پھول کی ادارت کی پیش کش کی جو انہوں نے قبول کر لی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا۔ اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں۔
1936ء میں ریفارمز کمشنر لاہور کے دفتر میں بیس روپے ماہوار پر محرر کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور 1937ء تک یہیں کام کرتے رہے۔ 1939ء – 41ء کے دوران ایکسائز سب انسپکٹر کے طور پر ملازمت کی۔
1939ء میں محکمہ آبکاری میں ملازم ہو گئے۔ 1942ء میں مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے۔ تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی 1943ء میں (ادب لطیف) کے ایڈیٹر مقرر ہوئے 1945ء – 48ء میں ریڈیو پشاور سے بحیثیت اسکرپٹ رائٹر وابستہ رہے تقسیم کے بعد ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے۔
احمد ندیم قاسمی نے سماجی مسائل کو اجاگر کیا انہوں نے اپنے افسانوں میں دہی رہن سہن ،طبقاتی تضاد، سماج میں پیسے ہوئے طبقات کی ناانصافیوں کو موضوع بنایا، بلکہ سیاست اور مذہب کے جو ٹھیکیدار ہیں جو اپنے مفاد کے لیے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں وہ ان کی قلم کی زد سے نہ بچ سکے۔ان کی تحریریں سچائی پر مبنی تھیں اوروہ زندگی کی اصل حقیقت کو پیش کرتے تھے ۔
غربت ،بھوک، توہم پرستی، بیماری، ناخواندگی، بےروزگاری،نچلے طبقوں کا استحصال ،امیروں کی عیاری ،دولت مند طبقے کا جارحانہ رویہ اجڑے گھروں اور ان کے رہنے والو کی حالت زار یہ سب دیہی باشندوں کے مسائل وہ ان کو بیان کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ کیونکہ ان کا فطرتی میلان دہی زندگی کی طرف زیادہ تھا ان کی زیادہ تر کوشش یہی ہوتی، کہ ایسے پسماندہ علاقوں میں رہنے والوں کو ان کے حقوق مل جائیں،اوران کا ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین میں شمار ہوتا تھا ،اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ قاسمی صاحب نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔
قاسمی صاحب ان چند لوگوں میں شامل ہیں جن کو ان کی شاعری خدمات پر تین بار آدم جی ادبی انعام دیا گیا ،اور ان کی ادبی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو تمغہ برائے حسن کارکردگی جو کہ پاکستان کا اعلی سول اعزاز ہے دیا گیا ،اور اس کے علاوہ انہیں ستارہ امتیاز عالمی فروغ اردو ادب ،کمال فن ادبی اور علامہ اقبال انعام سے بھی نوازا گیا ۔
10 جولائی 2006 کو تقریبا 90 برس کی عمر میں احمد ندیم قاسمی راہی ملک عدم ہو گئے ۔احمد ندیم قاسمی جیسی ہمہ جہت شخصیت کا چلا جانا ادب کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے ۔ان کو لاہور میں ہی دفن کیا گیا ۔کی ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان محکمہ ڈاک نے احمد ندیم قاسمی کی تیسری برسی پر ایک یادگار ٹکٹ جاری کیا جس پر قاسمی صاحب کا عکس بنا ہوا تھا ۔