تمنا ہی کی وجہ سے انسان زندگی میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے،اگر یہ تمنا رب کو حاصل کرنے کی ہو تو زندگی کا جو مقصد ہے انسان اس کو پا لیتا ہے،تو جب اس کے اندر اس کے قرب کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے تو پھر اس کا ہر عمل اس کے احکامات کے تابع ہو جاتا ہے۔وہ اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس کے قدموں میں گر جاتا ہے جو خود کو اس کے لئے جھکا لیتا ہے۔ توپھر وہ اس کو ایسا مقام عطاء کرتے ہیں جہاں اس کی سوچ کی پہنچ بھی نہیں ہوسکتی یہ وہی مقام ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر علامہ ّ اقبال نے فرمایا:
”خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے”
خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے انانیت، خود پرستی، خود مختاری، خود سری، خود رائی، خود غرضی، غرور، نخوت، تکبر کے معانی رکھتا ہے۔ ”خودی“ کا لفظ اقبال کے پیغا م یا فلسفہ حیات میں تکبر و غروریا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ خودی اقبال کے نزدیک نا م ہے احساسِ غیرت مندی کا،جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، مظاہراتِ فطرت سے برسر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے ”خودی“ زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد وملت کی ترقی و تنزل، خود ی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام، زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی۔
توجب انسان خودی کے نور سے اپنے تن من کو منور کر لیتا ہیتو پھر ہی وہ مردے کامل بنتا ہے۔
ا یسا مرد کامل جس کے سامنے دنیا کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوتی،کیونکہ اس کو معرفت الہی نصیب کو جاتی ہے اس کا تعلق اصل کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔پھر وہ ایسی طاقت بن کر ابھرتا ہے جو حق کا علم بلند کرتی ہے اور باطل کا قلع قمع کر دیتی ہے اور کثرت افراد سے نہیں گھبراتا اس کا یقین پختہ ہے کہ اس کا تعلق ایک ایسی ذات کے ساتھ ہے جو تمام کائنات کا بادشاہ ہے پھر اس کے صلہ میں اللہ پاک اس کو ایسی ایمانی طاقت کے ساتھ قوت عطا ء کرتے ہیں وہ باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ہوتا ہیاس کی زبان ہمیشہ حق کا ساتھ دینے والی بن جاتی ہے، پھر وہ بغیر کسی سے ڈرئے حق کا داعی بن جاتا پھر اسے کوئی خوف و خطرہ نہیں رہتا۔دنیا والوں سے اس کا مقصد صرف اور صرف اور ذات باری تعالیٰ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔
دوسری طرف وہ شخص جو اپنی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے ہر وقت ناشکری کے الفاظ سے اپنی زبان کو مزین رکھتا ہے،تو ایسا شخص ہمیشہ دنیاوی اعتبار سے بھی بے سکون رہتا ہے اور رب کی ناراضگی مول لے لیتا ہے،تو پھر شیطان اس کو ہر وقت لہو ولعب میں مبتلا کر کے اس مقصد سے دور رکھتا ہے۔ جس مقصد کے لئے رب تعالیٰ نے اس کو دنیا میں بھیجا تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان خواہشات کا غلام کیسے بنتا ہے؟
خواہشات کا غلام انسان اس وقت بنتا ہے جب وہ اس چیز کی طلب شروع کر دیتا ہے جو اس کی ہے ہی نہیں اور جو چیز اس کے پاس ہے جس سے اس کو اللہ نے نوازا ہے اس کی قدر نہیں کرتا،اس طرح سے وہ اللہ پاک کی نعمتوں کی ناشکری اور ناقدری کرنے والا بن جاتا ہے۔ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری بھی شرک خفی ہے اور وہ اپنی توقعات دوسروں سے لگانا شروع کر دیتا ہے،تو پھر اللہ تعالیٰ اس شخص کو جو اس کو چھوڑ کرکسی اورسے توقعات وابستہ کر لیتا ہے تواللہ پاک اس شخص کو ان لوگوں کا محتاج کر دیتا ہے جن سے اس کو اُمیدیں ہوتی ہیں۔پھر جب وہب اس کی توقعات پر پورے نہیں اُترتے تو وہ بد گمان ہوجاتا ہے۔
ایسے شخص کو قابو کرنا شیطان کے لئے نہایت آسان ہوتا ہے تو جب وہ اس کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے تو پھر وہ مایوسی کی طرف چلا جاتا ہے مایوس ہونے کی وجہ سے وہ تمنا کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔
تمنا نہ کرنا لہو کو ٹھنڈا کرنے کے مترادف ہے۔
اس موقع پر اک شعر ذہن میں آرہا ہے۔
نہ ہی خدا ملا نا وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے