یوں تو وطن عزیز میں انصاف کے حصول کے لیے بہت سے ادارے موجود ہیں تاہم وفاقی محتسب کے نام سے ایک ایسا ادارہ بھی 1983ء سے کام کررہا ہے جہاں وکیل کی ضرورت ہے نہ فیس کی، نہ کسی نوعیت کے اخراجات کی۔ شکایت کنندہ صرف سادہ کاغذپر بذریعہ ڈاک یا آن لائن درخواست دے سکتا ہے جس پر 24 گھنٹوں کے اندر کاروائی شروع ہو جاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ 60دن کے اندر فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ وفاقی حکومت اور اس کے ذیلی اداروں کی بدانتظامی، نااہلی اور کاہلی کے سبب عام افراد سے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف شکایات کا ازالہ کرتا ہے۔ بلاشبہ یہ امر وفاقی محتسب کے ادارے پر لوگوں کے اعتماد کا مظہر ہے کہ سال 2020ء میں انصاف کے حصول کے لیے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں ریکارڈ شکایات موصول ہوئیں اور ریکارڈ فیصلے کیے گئے۔ اس سال کورونا کے سبب دفاتر میں کام متاثر ہونے کے باوجود وفاقی محتسب سید طاہر شہباز کی طرف سے متعارف کرائی گئی نئی حکمت عملی اور ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال کے باعث وفاقی اداروں کے خلاف ایک لاکھ 33ہزار 521 شکایات درج ہوئیں جن میں سے ایک لاکھ 30ہزار 112 شکایات کے فیصلے کیے گئے۔ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کے قیام سے لے کر اب تک کی 38 سالہ تاریخ میں کسی ایک سال میں یہ سب سے زیادہ فیصلے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تمام فیصلے 60دن کے اندر کیے گئے اور ان فیصلوں پر عمل درآمد کی شرح 89فیصد رہی۔ اس کے مقا بلے میں گزشتہ برس یعنی 2019ء میں 74ہزار 878 شکایات کے فیصلے کیے گئے تھے جوکہ ہرچند پچھلے برسوں سے زیادہ ہی تھے تاہم اس بار موصول ہونے والی شکایات 2019ء کے مقابلے میں 82.7 فیصد زیادہ رہیں جبکہ فیصلوں پر نظرثانی اور صدر پاکستان کو اپیلوں کی شرح 0.24 فیصد سے بھی کم رہی۔ وفاقی محتسب کے احکامات کی روشنی میں بیرونی ممالک میں قائم پاکستانی مشنز اور سفارتخانوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی 51 ہزا ر316 اور پاکستان کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر قائم کیے گئے ”یکجا سہولیاتی ڈیسکوں“ پر 6ہزار 447 شکایات کا موقع پر ہی ازالہ کیا اور یہ تعداد درج بالا ایک لاکھ 30ہزار 112 شکایات کے فیصلوں کے علاوہ ہے۔ واضح رہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی شکایات کے سلسلے میں وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں سہولیاتی کمشنر برائے اوورسیز کی زیرنگرانی ایک شعبہ الگ سے بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے کام کررہا ہے۔ وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے گزشتہ ماہ مارچ میں اپنے ادارے کی سالانہ رپورٹ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد کو پیش کی۔ صدر پاکستان اور چیف جسٹس نے نہ صرف ادارے کی کارکردگی کو سراہا بلکہ بڑے پرزور الفاظ میں وفاقی محتسب کی تعریف کرتے ہوئے اس ادارے کو مزید وسعت دینے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں 2020ء کے دوران 55ہزار 591 شکایات بذریعہ ڈاک، 16ہزار 650 ویب سائٹ کے ذریعے، 5ہزار 999 موبائل ایپ کے ذریعے اور 55ہزار 281 شکایات کے ازالہ کے مربوط پروگرام کے تحت موصول ہوئیں جبکہ 6ہزار 112 شکایات OCR پروگرام کے تحت نمٹائی گئیں۔ وفاقی محتسب میں بچوں کے مسائل کے حل کے لیے ”قومی کمشنر برائے اطفال“ کے نام سے بھی ایک ادارہ کام کررہا ہے۔ سینئر ایڈوائزر اعجاز احمد قریشی اس کے سربراہ ہیں جو بچوں کے مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں اور یونیسف کے تعاون سے پروگرام بھی کرتے رہتے ہیں جن میں تمام سٹیک ہولڈرز کو دعوت دی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ شکایات موجودہ پی ٹی آئی حکومت کے سب سے مشہور پراجیکٹ احساس پروگرام کے خلاف آئیں۔ ان کی تعداد 40ہزار 120 ہے جبکہ ان میں سے 39ہزار 741 شکایات کے فیصلے کیے گئے۔ اس کے بعد زیادہ شکایات بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف آئیں جن کی تعداد 39ہزار 596 ہے جبکہ 2019ء میں ان کمپنیوں کے خلاف 38ہزار 208 شکایات کے فیصلے کیے گئے تھے۔ سوئی گیس کے خلاف 15ہزار 106 شکایات موصول ہوئیں جبکہ 14ہزار 257 کے فیصلے کیے گئے۔ وہ دس ادارے جن کے خلاف سب سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں ان میں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں اور سوئی گیس کے علاوہ نادرا، پاکستان پوسٹ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، پاکستان بیت المال، پاکستان ریلوے، سٹیٹ لائف انشورنس، آئی بی اور EOBI شامل ہیں۔ نادر اکے خلاف 2ہزار 351، پاکستان پوسٹ 6ہزار 919، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی 1ہزار 825، پاکستان بیت المال 653، پاکستان ریلوے 826، آئی بی 809 اور EOBI کے خلاف 790 شکایات موصول ہوئیں۔ اکثر شکایات پر فریقین کی رضامندی سے عملدرآمد بھی ہوگیا۔ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ نے OCR کے نام سے ایک پائلٹ پروگرام شروع کررکھا ہے۔ اس پروگرام کے تحت وفاقی محتسب کے تفتیشی افسران کو ہدایت کی گئی کہ وہ تحصیل اور ضلعی ہیڈکوارٹرز میں خود جاکر عوام الناس کو ان کے گھروں کے قریب مفت اور فوری انصاف فراہم کریں۔ وفاقی محتسب کے افسران نے ملک بھر کے تحصیل اور ضلعی ہیڈکوارٹرز پرجاکر 6ہزار 112 شکایات کا ازالہ کیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ادارے اپنے انفراسٹرکچر کی مضبوطی کے سہارے کامیابی سے کام سرانجام دیتے ہیں۔ تاہم ہمارے ہاں ادارے شخصیات کے مرہونِ منت ہیں۔ اگر کسی ادارے کا سربراہ سید طاہر شہباز جیسا ہوتو وہ ادارہ ملک کی نیک نامی کا باعث ہوتا ہے جیسا کہ وفاقی محتسب کا ادارہ۔ یہاں خاص بات یہ ہے کہ سید طاہر شہباز کی قیادت میں وفاقی محتسب کے انفراسٹرکچر کو بھی بہتر سے بہتر بنایا گیا ہے۔ میری تجویز ہے کہ پاکستان کا دفترخارجہ اگر وفاقی محتسب کی کارکردگی کو اقوامِ متحدہ اور فیٹف کے انسانی حقوق کے اداروں، عالمی انسانی حقوق کمیشن اور دیگر انصاف کے بین الاقوامی اداروں کے سامنے پیش کرے تو ملک کے امیج میں بہت بہتری آئے گی۔ وفاقی محتسب حکمرانوں کے لیے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک سے باہر بھی عمدہ کارکردگی کی پہچان ہے۔ ہمارے حکمران اپنے سیاسی فائدے کے لیے اپنے دور کی معمولی سی کارکردگی کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف وفاقی محتسب حقیقی معنوں میں جو شاندار کام کررہا ہے اُسے موجودہ حکمران اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کیوں نہیں کرتے؟