اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور سابق وزیر قانون زاہد حامد کو شریک جرم کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
عدالت نے تفتیشی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ خصوصی عدالت کی طرف سے ان تینوں افراد کے بارے میں دیے گئے ریمارکس سے متاثر ہوئے بغیر ان افراد کے خلاف تحقیقات کریں۔
نومبر 2014 کو خصوصی عدالت نے سابق صدر کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے تین نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی لگانے پر اس وقت کے وزیراعظم، وزیر قانون اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو شریک جرم کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کے علاوہ وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ اس ضمن میں ترمیم شدہ درخواست خصوصی عدالت میں پیش کریں۔
خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو سابق وزیراعظم، وزیر قانون اور سابق چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
جسٹس نور الحق قریشی کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ حکومت ان تینوں افراد کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں تفتیش کرنے کو تیار ہے جبکہ ان تینوں افراد کے وکلا نے اس شرط پر شامل تفتیش ہونے پر رضامندی ظاہر کی تھی اگر تفتیشی ادارے خصوصی عدالت کے اُن کے بارے میں ریمارکس سے متاثر نہ ہوں۔
عدالت عالیہ نے ان درخواستوں پر فیصلہ 19 اکتوبر کو محفوظ کر لیا تھاجسے منگل کے روز سنایا گیا۔
عدالت نےاپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاق نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس مقدمے کی تفتیش میں کچھ خامیاں رہ گئی ہیں جس کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ آئین شکنی کا مقدمہ دوسرے مقدمات کی نسبت مختلف ہے اور اس مقدمے کا اندارج اور اس تفتیش کسی کی خواہش کے مطابق نہیں کی جا سکتی بلکہ اس میں قانون کے مجوزہ طریقہ کار کے مطابق عمل کرنا پڑتا ہے۔
خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو سابق وزیراعظم، وزیر قانون اور سابق چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا
سابق فوجی صدر کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں سرکاری وکیل نے بتایا کہ اس عدالتی فیصلے سے ملزم پرویز مشرف کے خلاف ہونے والی کارروائی متاثر نہیں ہو گی۔
اُنھوں نے کہا کہ سابق فوجی صدر سے تفتنشی اداروں نے آئین شکنی کے مقدمے میں تفتیش مکمل کر کے چالان عدالت میں پیش کر دیا ہے جس کی بنیاد پر ملزم پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ جب تک سابق وزیراعظم، وزیر قانون اور پاکستان کے سابق چیف جسٹس سے تفتیش مکمل نہیں ہوتی اس وقت تک آئین شکنی کے مقدمے کی کارروائی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
سرکاری وکیل کے دعوے کے برعکس ملزم پرویز مشرف کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اُن کے موکل کو بھی دوبارہ شامل تفتیش کیا جائے گا جس کے بعد اُن پر فرد جرم دوبارہ عائد کی جائے گی۔