2008ءجمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب تھی جب رات گئے ہم چند ساتھی جدہ سے پہلی دفعہ عمرہ کرنے کے لئے مکہ روانہ ہورہے تھے، وہ کیفیت اور احساسات احاطہ تحریر میں لانا ممکن ہی نہیں ۔ ایک طرف ہم سب کے چہرے جوش و جذبات کی گرمی سے تمتمارہے تھے تو دوسری جانب آنکھیں نم اور سینے میں مچلتا دل اور زبان بے اختیار اللہ کے اس فضل وکرم پہ حمد و ثناء میں مصروف تھے بے شک یہ اللہ کا ایسا فضل ہے جسے پانے کے لئے دنیا کا ہر مسلمان ہمیشہ پروردگار کے حضور التجاء کا نذرانہ پیش کرتا رہتا ہے ، بیت اللہ پہ جب پہلی نظر پڑی تو اس دنیا کی ہر شے اور خواہش کسی حقیر ذرے سے بھی کمتر محسوس ہونے لگی ۔
اس کے بعد الحمدللہ دو حج اور درجنوں عمرے کرنے کی سعادت سے اللہ کریم نے نوازا، سینکڑوں بار مکہ گئے ، ڈھونڈ ڈھونڈ کر مکہ کے تاریخی اسلامی مقامات کی زیارت کی ، مکہ کی گلیوں میں خوب گھومے پھرے ،ہمیشہ ایک چیز جو میں نے بڑی شدت سے محسوس کی وہ یہ کہ ہر بار حرم کے سامنے ٹیکسی سے اترتے ہی دل پر ایک ہیبت اور رعب سا طاری ہوجاتا ہے اور جب تک حرم میں رہیں یہ ہیبت دل سے اترتی ہی نہیں۔
مکہ گنجان آبادی اور خشک پہاڑوں سے بھرا شہر ہے یقینا” زمانہ قدیم میں یہاں کی زندگی بڑی مشکل اور جفاکش ہوتی ہوگی ، جب میں پہلی بار مکہ گیا تھا تو حرم کے تین طرف بڑے بڑے اور تاریخی پہاڑ تھے جن میں جبل عمر سب سے بڑا اور تاریخی پہاڑ تھا بعد میں ان سب پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر کچھ مسجد حرام کی توسیع کردی گئی اور کچھ پہ زائرین کے لئے ہوٹل بنا دئیے گئے ۔
آج سے تیس چالیس سال پہلے شائد حج بہت مشکل ہوتا ہوگا لیکن آج خادمین حرمین شریفین نےجدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے بہت حد تک مکہ میں سفر اور رہائش کو آسان بنادیا ہے ، یہاں ہر طرف سرنگوں کا جال بچھا دکھائی دیتا ہے میرا خیال ہے دنیا میں سب سے ذیادہ سرنگیں شائد اسی شہر میں ہونگی،یہ ایسا سلامتی اور امن والا شہر ہے کہ بلا ضرورت یہاں کی گھاس کاٹنا اور درخت اکھاڑنا منع ہے، یہاں ہوٹلوں کی بہتات ہے ، یوں تو ہمیشہ یہاں پوری دنیا سے آئے توحید پرستوں کا رش لگا رہتا ہے مگر خاص طور پہ رمضان اور حج کے مہینوں میں تو رونق عروج پر ہوتی ہے ۔
2008ء ہی کی ایک اور ایسی رات تھی جب جدہ سے ہمارا قافلہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا ، یہ مبارک سفر بھی پہلی بار تھا ، اپنے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے جڑی ہر شئے سے محبت ہر مسلمان کا قیمتی اثاثہ ہے ، تہجد کے قریب مسجد نبوی کے پاس ہمیں اتارا گیا ، زیرزمین پارکنگ میں تقریبا” 4500گاڑیاں پارک کی جاسکتی ہیں اور مزے کی بات یہ کہ آپ کہیں بھی گاڑی پارک کرکے صرف چند سیڑھیاں چڑھ کر مسجد کے صحن میں پہنچ سکتے ہیں ۔
سب سے پہلے مسجد نبوی میں بنے غسل خانوں میں غسل کیا ، اس کے بعد تہجد اور پھر نماز فجر کی ادائیگی کے بعد انتہائی ادب و احترام سے درود سلام پڑھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دو جاں نثار ساتھیوں کی قبر پر نور پہ حاضری دی ، لمبی قطار میں ایک طرف سے چھوٹے چھوٹے قدموں سے سر جھکائے آنکھوں میں آنسو لئے سینکڑوں زائرین محبت اور احترام کے بے پناہ جذبات لئے آگے بڑھتے ہیں اور اپنی اپنی باری پہ کائنات کے سب سے افضل رسول اور اس کے سب سے افضل ساتھیوں کے حضور نظرانہ عقیدت پیش کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، اتنی بھیڑ ہوتی ہے لیکن کوئی شور شرابا اور نا دھکم پیل ، آپ دنیا کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں ایسا سکون آپ کو کہیں محسوس نہیں ہوگا، صاف ستھرا کشادہ شہر ، کھلی سڑکیں ، معتدل آب و ہوا ، خوش اخلاق لوگ۔
دور نبوی کا قریب سارا مدینہ 1985 سے 1995 تک جاری رہنے والی مسجد کی توسیع میں شامل ہوچکا ہے ، باہر صحن میں کھڑے ہوکر چشم تصور سے دیکھیں تو یہیں آس پاس صحابہ کرام کے گھر ہوا کرتے تھے، یہیں کہیں حسنین کریمین اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے ، یہیں میرے نبی کے وفادار ساتھی ہر وقت ان کی خدمت کے لئے کمربستہ رہتے تھے، یہ وہ مقدس و متبرک زمین ہے جس نے ایسی ایسی عظیم ہستیوں کے قدم چومنے کا شرف حاصل کیا ہے جن کی پاکیزگی خود اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب میں بیان کی ، روضہ رسول سے متصل ریاض الجنہ اور اس کے پاس ہی اصحاب صفہ کا وہ چبوترا ہے جہاں وہ دن رات بھوکے پیاسے علم حاصل کرنے میں مصروف رہتے تھے ۔ ناشتے کے بعد احد ، مسجد قبلتین، مسجدقباء اور دیگر زیارتوں سے آنکھیں ٹھنڈی کیں ، نماز جمعہ کا وقت قریب ہورہا تھا اس لئے واپس مسجد نبوی کی راہ لی ، حرمین میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے بہت پہلے با وضو ہوکر بیٹھنا پڑتا ہے دوسری صورت میں اندر جگہ نہیں ملتی اور باہر دھوپ میں بیٹھنا پڑتا ہے ۔
نماز جمعہ کے بعد مسجد کے بالکل ساتھ قدیم اور تاریخی قبرستان بقیع میں حاضری کا موقع ملا جہاں بے شمار صحابہ کرام کے ساتھ کئی ازواج مطہرات بھی دفن ہیں، یہاں غیر معمولی سیکیورٹی دیکھ کر حیرت ہوئی ، حرمین کی ایک خاص بات اور کہ یہاں کافی زبانوں پہ عبور رکھنے والے سرکاری گائیڈ جنہیں مقامی زبان میں ” مطوعہ” کہاجاتا ہے موجود ہوتے ہیں، ایسے ہی ایک مطوعے سے ہم نے اس بابت پوچھا تو بتایاگیا کہ “پچھلے جمعے انڈیا ، پاکستان کے کچھ زائرین نے قبروں سے مٹی اٹھا اٹھا کر اپنے تھیلے بھرنے شروع کردئیے تھے اس وجہ سے یہ حفاظتی انتطامات کئے گئے ہیں “۔
ہم اکثر اپنے ملکوں میں ایک بات سنتے ہیں کہ سعودی گستاخ اور بے ادب ہیں حالانکہ اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائےتو نہائت شاندار اور اعلی انتظامات ہیں جو انہوں نے حرمین والشریفین میں کئے ہیں ۔
خدا نخواستہ اگر صرف صحابہ کرام کی مبارک قبروں کا کنٹرول ہی ہمارے پاس ہوتا تو ذرا تصور کیجئے کیا حال ہوتا ؟ ۔ اس کے لئے مجھے کوئی مثال دینے کی ضرورت نہیں آپ خود اپنے اردگرد بزرگوں کے مزاروں کا جائزہ لیجئے اور ان پہ ہونے والی خرافات کا بغور مشاہدہ کیجئے بات سمجھ میں آجائے گی ۔
نوٹ: ان شاءاللہ آئیندہ کالم میں حج اور تاریخی مقام بدر کے سفر کا احوال بیان کیاجائےگا۔