آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ‘سلم ڈاگ ملینیئر’ میں بچوں کا کردار ادا کر والے فنکار روبینہ اور اظہر کی زندگیاں یک دم بدل گئیں تھیں لیکن ایک بار پھر ان کے ستارے گردش میں ہیں۔
روبينہ نے نو سال کی عمر میں ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ میں کام کیا تھا اور اس فلم نے ممبئی کے کچی آبادی میں رہنے والی روبينہ کی زندگی بدل دی تھی۔ انھیں پیسے، شہرت اور سر پر چھت سب کچھ ملے لیکن آج وہ کہتی ہیں: ’پیٹ بھرنے کے لیے میں کوئی بھی کام کر لوں گی جس سے مجھے سات سے آٹھ ہزار روپے مل جائیں۔ میں نے کسی کام کو چھوٹا یا بڑا نہیں سمجھتی۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’مجھے لگتا تھا کہ میری زندگی بالکل بدل گئی ہے۔ میں سیلبریٹی ہوں۔ لوگ مجھے پہچانتے تھے تو مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 2011 میں باندرہ علاقے میں لگنے والی تباہ کن آگ میں اپنا مکان اور آسکر کی ساری یادیں گنوا دیں۔
اور اب یہ عالم ہے کہ وہ کسی کو یہ بھی نہیں بتانا چاہتی کہ وہ کہاں رہتی ہیں۔ اب وہ بی اے فرسٹ ایئر کی طالبہ ہیں اور 18 سال کی ہو چکی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سب کچھ آگ میں گنوانے کے بعد فلم کے ڈائریکٹر ڈینی بوئیل کے ’جے ہو‘ ٹرسٹ نے انھیں گھر دیا۔ لیکن آج وہاں اس کے والد اور سوتیلی ماں رہتی ہیں۔ گھر خالی کرائے جانے پر والد خودکشی کی دھمکی دیتے ہیں۔ جبکہ ان کی سگی ماں نے دوسری شادی کر لی ہے اور وہ روبینہ کا حال احوال تک نہیں پوچھتی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ ڈیڑھ سالوں سے اکیلی رہ رہی ہیں اور پیٹ بھرنے کے لیے انھیں پارٹ ٹائم ملازمت کی تلاش رہتی ہے۔ ’کوئی حقیقی والد ایسا کیسے کر سکتا ہے وہ گھر کے ساتھ ساتھ فکسڈ ڈپازٹ میں 50 فیصد حصہ چاہے؟ ایک سال چار مہینے سے میری ماں کا فون تک نہیں آیا کہ تو کیسی ہے، کہاں رہ رہی ہے؟ میں اکیلی ہوں۔ میری زندگی میں کچھ نہیں بچا ہے۔ وہ لوگ اپنی زندگی میں خوش ہیں تو مجھے بھی اپنی زندگی میں خوش رہنا چاہیے۔‘
لیکن روبينہ کے والد رفیق قریشی ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’وہ میری بیٹی ہے۔ اسے میں بھلا دھمکی کیوں دوں گا؟ وہ خود گھر سے چلی گئی۔ کل اگر ‘جے ہو’ ٹرسٹ اس کے نام پر گھر کرنا چاہے تو بھی مجھے تکلیف نہیں۔ آج میں بیمار ہوں۔ وہ كبھی کبھی مجھے فون کرتی ہے۔ لیکن مجھے پتہ نہیں کہ وہ سب سے یہ کیوں چھپاتی ہے کہ وہ کہاں رہتی ہے۔‘ سلم ڈاگ ملینیئر میں ہیرو کے بچپن کا کردار ادا کرنے والے اظہر کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
اظہر فی الحال اس کشمکش میں ہیں کہ خواب کے پیچھے دوڑیں یا پیٹ بھرنے کے پیچھے۔ وہ بھی روبینہ کی ہی طرح باندرہ علاقے کی کچی آبادی میں رہتے تھے، لیکن فلم کے بعد انھیں بھی ایک چھت ملی جہاں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں، لیکن خواب تو آج بھی نامکمل ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’میں ایکٹنگ کا کورس کرنا چاہتا ہوں، لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ آٹھویں کلاس تک سکول میں میں نے امول گپتے کی ایکٹنگ کلاسز کی لیکن نوويں کلاس میں سکول چھوٹنے کے ساتھ ہی وہ بھی چھوٹ گئی۔ گذشتہ سال پیسوں کی تنگی کی وجہ سے سکول چھوٹ گیا۔ ابھی سوچ رہا ہوں کہ پرائیویٹ دسویں کا امتحان پاس کر لوں۔‘ اظہر کے سر سے باپ کا سایہ سنہ 2009 میں ہی اٹھ گیا تھا۔ اظہر کہتے ہیں کہ اگر ایکٹنگ میں کوئی چانس نہیں ملا تو ٹرسٹ سے ملنے والی رقم سے بھائی کے ساتھ مل کر بزنس کریں گے۔ آسکر کے ریڈ کارپٹ پر ایک ساتھ چلنے والے اداکار روبينا اور اظہر آج ایک دوسرے کے رابطے میں نہیں ہیں۔ اسی سال 18 سال کے ہو جانے کی وجہ سے اظہر اور روبينہ کو ہر ماہ ‘جے ہو’ ٹرسٹ کی جانب سے ملنے والی رقم بھی اب بند ہو چکی ہے۔
اگرچہ بہت ہی جلد ٹرسٹ کی جانب سے عطیہ کیا ہوا گھر اور پیسے اظہر کے نام ہو جائیں گے لیکن روبينہ کے سر پر تو وہ چھت بھی نہیں ہے۔ سلم ڈاگ ملینیئر کی کامیابی کے وقت مدد کے بہت سے وعدوں نے دونوں کی امیدیں بڑھا دی تھیں۔ انیل کپور کے ساتھ ساتھ کئی مقامات سے مدد کی یقین دہانی ملنے کی وجہ سے روبینہ اور اظہر دونوں ہی کچھ سال پہلے انیل کپور سے ملنے گئے۔ جہاں اظہر کو دوبارہ مدد کی یقین دہانی کرائی گئی جبکہ روبينہ کی تو ملاقات بھی نہیں ہو سکی۔ بہرحال اظہر کو آج بھی امید ہے کہ مدد مانگنے پر انھیں مدد شاید مل جائے گی۔
اظہر کہتے ہیں: ’یہ دنیا (فلمی دنیا) ایسی ہے جہاں کسی پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ لوگ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی مدد کریں گے لیکن کوئی کرتا نہیں۔ میں تو صرف اتنی مدد چاہتا تھا کہ مجھے کوئی اچھی فلم میں کام مل جاتا۔‘ بہر حال دونوں کی زندگی میں اگر کوئی امید کی کرن ہے تو وہ ہیں ڈائریکٹر ڈینی بوئیل۔ وہ ہر بار انڈیا کے دورے پر دونوں سے ملنا نہیں بھولتے۔