بین الاقوامی شہرت اور عزت کے حامل شاعر ظفر عباس ظفرؔ یکم جون 1965ء میں پاکستان کے صوبے سندھ کے شہر خیرپور میرس میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق خیرپور کے ایک مہذب گھرانے سے ہے۔ اِن کے آباو اجداد جونپور انڈیا سے ہجرت کرکے خیرپور کی مذہبی دھرتی پر تشریف لائے۔ ابتدائی تعلیم خیرپور سے ہی حاصل کی اور پھر کراچی یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔
اسکول ہی کے زمانے سے شاعری کا آغاز کیا اور اسکول ہی سے قومی ترانے اور نغمے گا کر انعامات حاصل کئیے۔ ظفر عباس ظفرؔ نے ہزاروں کی تعداد میں حمد، نعت، منقبّت، سلام، نوحے، مسدّس، قومی نظمیں، شخصی نظمیں، مرثیے، غزلیں، سہرے، رخصتی، قطعات اور متفرق اشعار تحریر کیئے۔ ظفر عباس ظفرؔ کی گیارہ کتابیں منظرِ عام پر آکر پڑھنے والوں سے داد و تحسین وصول کرچکی ہیں۔ تین کتابوں پر انہیں اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔ اِن کی تحریر کردہ نوحوں پر انہیں سونے (گولڈ) اور چاندی کے ایوارڈ بھی مِل چکے ہیں۔ شاعری کی ابتدائی دَور میں اپنے والد سید عباس حیدر مرحوم اور بڑے بھائی سید اظہر عباس سے اصلاح لیتے رہے اور پھر سینیئر شعرائ جناب زاہد فتحپوری، جناب ساحر فیض آبادی اور کلیمِ آلِ عباء حضرتِ شاہد نقوی کے سامنے زانوئے ادب طے کیا۔ اسوقت دنیائے ادب اور مذہبی شاعری سے وابستہ نئے لکھنے والے ظفر عباس ظفرؔ سے مشورے لینا اپنے لیئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ظفر عباس ظفرؔ کے دو صاحبزادگان میثم رضا اور عطا عباس (جو کہ خوبصورت اآوازوں کے بھی مالک ہیں) کمسنی ہی سے شاعری کررہے ہیں۔ اللہ ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے
ظفر عباس ظفرؔ کے کلام پڑھنے والوں میں شہید امجد صابری، سفیرِ عزا جناب سید ندیم رضا سرور، اسد امانت علی خاں مرحوم، اُستاد پیارے خاں صاحب، ناظم حسین، آفاق حسین، ابرار فتحپوری، ناصر زیدی، ساجد جعفری، مختار شیدی، رضا عباس زیدی، فرحان علی وارث، عرفان حیدر، شادمان رضا، مقدس کاظمی، رضوان زیدی، علی تفسیر زیدی، مختار فتحپوری، ہاشمی سسٹرز، رضا حیدر، رضا عباس شاہ، حیدر علی، علی رضا، کاظم نیّر، دانیال حسین اور دیگر درجنوں نام ہیں۔ جو جگہ کی قلت کی وجہ سے شاملِ تحریر نہ ہوسکے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں کسی بھی حادثے یا دہشت گردی کے واقعے کے بعد پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والی نظم “نہ جانے کس کی نظر لگی ہے وطن ہمارا لہو لہو ہے”۔ اِس تعزیتی اور دُعائیہ نظم کے خالق بھی ظفر عباس ظفرؔ ہیں اور وہ نظم انہی کی آواز میں ہے۔
ظفر عباس ظفرؔ دنیا کے تقریباً تمام خِطّوں میں اپنی انقلابی اور بے باک شاعری اور اپنے خوبصورت ترّنم کا لوہا منواچکے ہیں۔ آسٹریلیا، ملائیشیا، امریکہ، لندن، کینیڈا، انڈیا، مسقط، دبئی، ابوظہبی، شارجہ، کینیا، کمپالا، تنزانیہ، ایران، عراق، شام ان تمام ممالک میں بارہا مشاعروں میں جاچکے ہیں اور دیگر ممالک سے مسلسل دعوت نامے موصول ہورہے ہیں۔
ظفر عباس ظفرؔ اردو، سندھی، پنجابی، فارسی اور انگلش زبان میں شعر لکھتے رہے ہیں۔
غزل کے عالمی مشاعرے میں بھی شرکت کرچکے ہیں۔ ظفر عباس ظفرؔ گذشتہ کئی برس سے اہلبیت ٹی وی لندن سے بطور اینکر (میزبان) اور بطور مہمان پروگرام پیش کررہے ہیں جوکہ اسلامی دنیا میں بہت مقبول ہوئے۔ اہلبیت ٹی وی کے علاوہ پی ٹی وی، اے آر وائی، ٹی وی ون، سماء ٹی وی، ڈان ٹی وی، ہادی ٹی وی، ہدایت ٹی وی، ولایت ٹی وی، اردو ٹی وی، انڈیا، دارلسّلام ٹی وی سے بھی ان کے پروگرام نشر ہوتے رہے ہیں۔
ظفر عباس ظفرؔ اسوقت مُلک کی بہت ہی مقبول شخصیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو کافی عرصے سے دہشت کرد تنظیموں اور مُلک دشمن قوتوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی رہی ہیں جس کا ذکر مقامی اخبارات بھی کرچکے ہیں اور متعلقہ تھانوں میں بھی رپورٹ ہوچکی ہے۔ یاد رہے کہ مسجدِ حیدری کے بم دھماکے میں ظفر عباس ظفرؔ کے چھوٹے بھائی افسر عباس شہید ہوچکے ہیں اور ظفر عباس ظفرؔ کے قریبی دوستوں پروفیسر سبطِ جعفر، جناب امجد صابری، خرّم ذکی اور آغا آفتاب حیدر اور آصف کربلائی کو بے گناہ سرِ عام قتل کیا جاچکا ہے۔
ہم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ظفر عباس ظفرؔ اور اِن جیسی دیگر ادبی، علمی، مذہبی، سماجی شخصیات کو تحفّظ فراہم کیا جائے۔