دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ کوئٹہ میں ہوجائے تو ہمارے لئے اس کی ممکنہ وجہ بیان کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ جی ہاں۔ گوادر کو کاشغر سے ملانے والی CPECکو ناکام بنانے کی سازش۔
نقشہ دیکھ کر اگرچہ بآسانی دریافت کیا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ گوادر سے کئی کلومیٹر دور ہے۔ فی الوقت اس شہر کے گردونواح میں ایسے صنعتی علاقے بھی موجود نہیں جہاں بیرون ملک بھیجنے کے لئے مصنوعات تیار کرنے کے مختلف النوع کارخانے 24گھنٹے کام کررہے ہوں۔
کوئٹہ کے شمال میں افغانستان ہے۔چمن کی سرحد پار کرنے کے بعد قندھارآتا ہے۔اس علاقے سے ملاعمر نمودار ہوا تھا۔آج بھی افغان حکومت کو سب سے زیادہ مزاحمت اسی علاقے سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کالہذا وہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں گھریلو استعمال کی بیشتر اشیاء گوجرانوالہ، وزیر آباد اور گجرات کے کارخانوں میں تیار ہوتی ہیں۔قندھار کو ہرات سے ملانے والی سڑک پر البتہ انگور،سیبوں اور انار کے باغات ہیں۔وہاں سے تازہ اور خشک پھل چمن کے راستے پاکستان آتا ہے۔یہ اجناس ابھی اتنی وافر مقدار میں میسر نہیں کہ انہیں عالمی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے گوادر کی بندرگاہ پر لنگرانداز بحری جہازوں کی ضرورت محسوس ہو۔
سوالات اٹھانے کی مگر ہمیں عادت نہیں۔جو سنیں اس پر فی الفور ایمان لے آتے ہیں۔ہمیں بتایا گیا ہے کہ سی پیک Game Changerہوگا۔ امریکہ،بھارت اور ایران اس کے امکانات سے گھبرائے ہوئے ہیں۔انہیں معدوم کرنے کے لئے اپنے کارندوں کے ذریعے کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات رچانے کے مواقع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
پیر کی شب لاہور کے چیئرنگ کراس پر عین پنجاب اسمبلی کے سامنے جو دھماکہ ہوا،اسے سی پیک کو ناکام بنانے کی سازش سے جوڑنا بہت مشکل تھا۔سوالات اٹھانے کی صلاحیت سے محروم ہوئے یا کئے ذہنوں کے لئے اس دھماکہ کا جوازڈھونڈنا مگر مشکل ثابت نہ ہوا۔دوبئی میں ان دنوں PSLکا دوسرا سیزن جاری ہے۔ہماری بڑی خواہش تھی کہ اس کا فائنل لاہور کے فذافی سٹیڈیم میں منعقد ہو۔ اس فائنل کا انعقاد ہوگیا تو دنیا کو پیغام مل جاے گا کہ آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ پاکستان میں دائمی امن لوٹ آیا ہے۔ بات مگر اتنی سادہ نہیں۔
لاہور میں دھماکہ ہونے کے چند ہی منٹ بعد ایک تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی۔اس نے خودکش حملہ آور کا نام بھی بتادیا۔ بعدازاں اس کی تصویر بھی جاری کردی۔پاکستان کے ’’آزاد‘‘ اور ’’بے پاک‘‘ میڈیا کو اس تنظیم کا نام لینے کی مگر اجازت نہیں۔اس تنظیم کا میڈیا سیل اگرچہ ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا اور ان کی سرپرستی کرنے والے ’’ذرائع‘‘ سے کہیں زیادہ متحرک ہے۔
لاہور میں ہوئے دھماکے سے صرف تین روز قبل اس تنظیم نے یوٹیوب کے ذریعے ایک پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا۔18منٹ دورانیے کی ایک مختصر فلم تھی جس میں اس تنظیم کے نوجوان فوجی تربیت کے مختلف مراحل سے گزرتے دکھائے گئے تھے۔ ان کی ’’مہارت‘‘ کے مظاہرے کے بعد اطلاع یہ دی گئی کہ اسلا م آباد کی لال مسجد سے جڑے ایک کردار کے نام سے منسوب پاکستان بھر میں ایک ’’نیا آپریشن‘‘ لانچ کرنے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے۔اس آپریشن کا پہلا ہدف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی عمارتیں ہوں گی۔دوسری ترجیح پاک آرمی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں۔
ان کے علاوہ بھی ممکنہ اہداف کی ایک طویل فہرست ہے۔ لاہور میں PSLکے فائنل کو ہر صورت روکنا اس فہرست میں اگرچہ شامل نہیں۔انگریزی میڈیم سکول ہیں۔بقول اس تنظیم کے پاکستانی ریاست کا ’’غلام‘‘ ہوا میڈیا ہے اور وہ سب لوگ جو خود کو ’’لبرل‘‘ وغیرہ کہتے ہیں۔
یہ بات بہت واضح ہے کہ پاکستان پر درحقیقت ایک نظریاتی جنگ بھرپور انداز میں مسلط کرنے کا ارادہ ہے۔آپ تسلیم کریں یا نہیں اس جنگ کی سپاہ کو تیار کرنے کے لئے زیادہ زور ذہن سازی پر دیا گیا ہے جو ایک سادہ اور بنیادی مگر مو191ثر بیانیے کے بغیر ممکن ہی ہیں۔
اس بیانیے کو لوگوں کو سامنے لاکر اسے دلائل کے ذریعے رد کرنے کی مگر ہمارے ہاں کوئی گنجائش موجود نہیں ہی۔ ’’کالعدم تنظیم‘‘ کا ذکر ویسے ہی ہے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوترآنکھیں بند کرکے خود کو محفوظ تصور کرلیتا ہے۔ ریاست نے ان تنظیموں کا نام لینے پر پابندی عائد کرنے کے ذریعے درحقیقت اپنی قوت اور میڈیا کی ’’بے باکی‘‘ کا بھرم قائم کررکھا ہے۔ ان تنظیموں کا نام لے کر اس کے بیانیے کو رد کرنے کے لئے بھی ایک حوالے سے ’’خودکش‘‘ لکھاریوں کی ضرورت ہے اور جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔
اپنی جان سے پیار اس وقت مزید ضروری ہوجاتا ہے جب اپنی ’’بے باکی‘‘ کی بدولت آپCelebrity Anchorبن جائیں۔اپنے ٹی وی چینل کو Ratingسے مالا مال کردیں۔سیٹھوں کی فراہم کردہ بلٹ پروف جیپ میں سفر کریں۔مختلف تقریبات میں جائیں تو لوگوں کا ایک ہجوم آپ کے ساتھ سلفیاں کھچوانے کو بے چین ہوجائے۔آپ کا سوٹ برانڈڈ ہو۔ٹائی شوخ۔ بال Gelسے بٹھائے ہوئے۔دانت لیزر کی مدد سے موتیوں کی طرح چمکتے اور خود کو فٹ رکھنے کے لئے Gymsاور Trainersوغیرہ۔عقل و فہم سے قطعاََ محروم ہوا کوئی دیوانہ ہی ان سہولتوں اور راحتوں کو قربان کرنا چاہے گا۔ پاکستانی میڈیا کے ذریعے لہذا خدا کے لئے کسی ایسے بیانیے کی توقع نہ کیجئے جو ’’کالعدم‘‘ کہلاتی تنظیموں کے ذریعے انٹرنیٹ پر پھیلائے بیانیے کا توڑ فراہم کرسکے۔
اس کالم کے ذریعے اپنی ذہانت اور فطانت کے بے پناہ اظہار کے لئے کم از کم مجھے تو ویسے بھی ڈونلڈٹرمپ مل چکا ہے۔امریکہ میں صدارتی انتخاب کی مہم شروع ہوتے ہی اس کا ذکر اس کالم میں تسلسل کے ساتھ کرتا رہا ہوں۔کبھی کبھار کوئی ایسی کتاب بھی ہاتھ لگ جاتی ہے جو بین الاقوامی مسائل کا کوئی نیا رْخ دکھاتی ہے۔ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے خود کو دانش ور ثابت کرسکتا ہوں۔ موسیقی اور ادب سے دلچسپی بھی اکثر اس کالم کا پیٹ بھردیتی ہے۔اصل مسئلہ مگر اس وقت درپیش ہوتا ہے جب ٹی وی سکرین پر ’’ڈرامہ‘‘لگانا ہو۔پتھر میں بند ہوئے کیڑے کو بھی لیکن ربّ کریم رزق پہنچادیتا ہے۔عقل کل بنے اینکروں کو اپریل 2016ء سے پانامہ دستاویزات مل چکی ہیں۔اسے بلوتے رہے اور نومبر سے سپریم کورٹ میں پیشیاں شروع ہوگئیں۔بدقسمتی سے پانامہ کی سماعت کرنے والے بنچ کے ایک رکن چند دن قبل علیل ہوگئے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب وہ صحت یاب ہوکر بنچ پر بیٹھنے کو لوٹ آئے ہیں۔ہمارے رزق کا بندوبست ہوگیا۔ لاہور میں ہوئے دھماکے پر توجہ دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔