بخاری میری خاطر صرف ایک کش صرف ایک کش، تم اپنے دوست کی خاطر ایک کش نہیں لگاﺅ گے؟ یہ کلاس کی جانب سے کی جانے والی باربی کیو پارٹی میں میرے ایک بہت قریب دوست کے جملے تھے۔ ایک وقت کو میں نے سوچا کہ ایک کش لگانے میں کیا حرج ہے؟ کیا ہو جائے گا جو میں اپنے دوست کا دل رکھنے کے لئے ایک کش سگریٹ کا لے لوں ؟ لیکن پھر خیال آیا کہ یہ ایک کش ہی اس پرندے کی مانند ہوتا ہے جو اپنی پہلی اُڑان سے خوف زدہ ہوتا ہے مگر جوں ہی وہ اُڑنا شروع کرتا ہے تو اس کی پرواز بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے۔ اکثر نوجوان اپنے دوستوں کی خاطر ہی نشے کی ابتدا ءکرتے ہیں اور یہ ابتدا رفتہ رفتہ ان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ زمانہ طالب علمی میں قریبی دوستوں ہی کی وجہ سے نشے کی لت پڑتی ہے اور تادم حیات ان کے ساتھ ایک ناسور کی مانند جڑ جاتی ہے۔ابتداءمیں محض حق دوستی ادا کرنے کے لئے شروع کی جانے والی عادت زندگی کے خاتمے کا باعث بن جاتی ہے۔ پاکستان بدقسمتی میں ان ممالک میں شامل ہے جہاں کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نشے کی لت میں گرفتار ہے۔ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 65لاکھ سے زائد نوجوان نشے جیسے لعنت میں گرفتار ہیں۔منشیات فروشوں کے لئے تعلیمی ادارے آسان ہدف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ دونوںسینٹ کی کمیٹی برائے داخلہ کو ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اسلام آباد کے اسکولوں کے %53 بچے منشیات کے عادی ہیں۔ معصوم بچوں کو نشہ فروخت کرنے والوں میں کچھ اساتذہ اور پہلے سے نشے کے عادی طلباء اور طالبات بھی شامل ہیں۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ اسکول کے باہر کھوکھے اور ریڑھی والے بھی اسکول کے بچوں کو منشیات کی فروخت کا ذریعہ بن رہے ہیں۔دوسری جانب قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے مطابق یونیورسٹی میں طلباءمیں افسوسناک حد تک منشیات کا استعمال اور جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے ،انسداد منشیات کنٹرول ڈویڑن اسلام آباد کے مطابق ایک سروے کے مطابق 4 سکولزمیں منشیات کی سپلائی اور استعمال ہو رہا ہے جس میں 3 سرکاری سکولز اور ایک نجی تعلیمی ادارہ شامل ہے۔30 اپریل 2016 ءتک 155 افراد پکڑے گئے 136 افراد مجرم رجسٹرڈ ہوئے۔ ڈین فیکلٹی سائنسزقائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر وسیم نے کہا یونیورسٹی میں طلباءمیں تین کیٹیگریز کی منشیات استعمال ہو رہی ہے ، ایک شراب ، دوسری چرس ، تیسری ایک گولی ہے جو 12 سے 15 ہزار تک کی لاہور سے منگوائی جا رہی ہیں۔دوسری جانب لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(لمز) کا ایک طالب علم منشیات کی زیادہ مقدار لینے کی وجہ سے اپنی جان کی بازی ہار گیا۔ لاہور کے اکثر تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت عروج پر ہے۔ گذشتہ روز ”روزنامہ ایکسپریس لاہور “کے رپورٹر رضوان آصف نے تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے وزیراعلیٰ کوپیش کی جانے والی رپورٹ کے حوالے سے ایک خبر دی جس میں انکشاف کیا گیا کہ لاہور میں721منشیات فرو ش سرگرم ہیں اور ان کی سرپرستی پولیس اور بااثر افراد کر رہے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ پوش علاقوں میں امیروں کی کوٹھیوں پر کوکین ، ہیروین اور چرس باآسانی فراہم کر دی جاتی ہے۔لاہور پولیس ان منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ماہانہ تیس سے چالیس ہزار بھتہ وصول کرکے انہیں آزادی سے نوجوانوں میں زہر کا کاروبار کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ان حالات میں ملک کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کو ختم کرنے کے لئے کی جانے والی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔منشیات کی فراوانی اور نوجوان طلبہ وطالبات میں ان کے استعمال میںا ضافے کا رجحان ناکام سیکورٹی، ہم نصابی سرگرمیوں کا فقدان، والدین کا رویہ اور منشیات فروشوں کا اثرو رسوخ ہے۔قوم کا مستقبل جس تباہی کے دہانے پر موجود ہے اس پر حکومت اور سنجیدہ طبقوں کی خاموشی تکلیف دہ ہے۔ پولیس اور انتظامیہ میں موجود افراد کے خلاف اگر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو ہمارے تعلیمی اداروں سے ڈاکٹرز ، انجنئیرز اور سکالرز نکلنے کی بجائے صرف ”جہاز“ ہی پیدا ہوں گے۔ قوم کے نوجوان ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی بجائے بس جھومتے نظر آئیں گے۔اہل قلم ، میڈیا ، سول سوسائٹی اور اساتذہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ”اب اُڑ جا رے پنچھی“ گنگنانے کی بجائے ہواﺅں کے دوش پر نکلتی نسل کی تربیت کرتے ہوئے نونہالوں کا مستقبل محفوظ بنائیں۔مجھے والدین سے بھی شکوہ ہے کہ آخر کیوں اپنی اولادوں کو بے جا لاڈ اور پیار میں تباہ کر رہے ہیں؟ کیوں ”ابھی چھوٹا ہے ، وقت آنے پر سمجھ جائے گا “کا راگ الاپتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے خلاصی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟آپ کے بچے جہاں آپ کا مستقبل ہیں وہیں اس دیس کو ان سے توقعات ہیں۔ یہ قوم ان سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ ذرا اپنے بیٹے اور بیٹی کے معاملات پر گہری نظر رکھیں اس کے دوستوں کے بارے میں معلومات رکھیں اور اس بات پر بھی نگاہ رکھیں کہ وہ گھنٹوں اپنے کمرے میں بند رہتا ہے۔ رات کو تاخیر سے گھر کیوں آتا ہے؟ تعلیمی اداروں اور نجی ہاسٹلز کے بارے میں خبر رکھیں اور اپنی اولاد کے بارے میں ہر قدم پرآنکھیں کھول کر رکھیں۔ محکمہ تعلیم کے حکام ان تعلیمی اداروں کے بارے میں بھی لائحہ عمل بنائیں جہاں کھیل کا میدان ہے اورنہ ہی ہم نصابی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں ۔ ٹھیکہ سسٹم پر چلنے والے اداروں کے گرد گھیرا تنگ کریں۔اے این ایف کا شعبہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے دائرہ اختیا رمیں چلا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کا کردار کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے۔ اس شعبے کو فعال کرکے ہونہار افسران کی تعیناتی کی جائے۔تمام بااثر افراد اور پولیس کے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے جو معاشرے میں زہر کے پھیلاﺅ کا باعث بن رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کرذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے، اس قوم کے مستقبل کو محفوظ تر بنانے کے لئے اپنے ارد گرد اس مکروہ دھندے میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرکے ، نوجوانوں میں آگاہی مہم کے ذریعے اس کا تدارک کریں۔قانون کی بالادستی کے لئے اپنا اثر اور دباﺅ کار سرکار میں مداخلت کے لئے استعمال نہ کریں۔بہرحال حکومت کی مﺅثر قانون سازی اور ریاست کی رٹ قائم کرکے ہی اس زہر کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔یاد رکھیئے ! آج اگر ایک نوجوان اس لت میں گرفتار ہے تو کل آپ کی اولاد بھی اس سے متاثر ہو سکتی ہے۔ آج اگر آپ کوئی نہیں امیروں کے رئیس زادے تباہ ہورہے ہیں کہہ کر راگ الاپ رہے ہیں تو آپ کی اولاد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے ، جسے آپ پائلٹ بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں اسے بھی” جہاز“ بننے میںوقت نہیں لگے گا۔ اٹھیں اور اپنے حصے کا دیا جلائیں اور اس دیس کے آنگن کو روشنیوں سے بھر دیں۔