چند دن پہلے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر کیا منتخب ہوا دنیا میں کھلبلی سی مچ گئی اس کی کچھ وجوہات ضرور ہیں ایک تو شائد پوری دنیا یہ ہر گز توقع نہیں کر رہی تھی کہ امریکہ جیسے ملک میں لوگ ایک نسل پرست کو اپنا صدر منتخب کرے گے شاید رد عمل اس لئے بھی زیادہ تھا کہ امریکن پالیسی میں کوئی بھی ردو بدل پوری دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے اور پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ امریکہ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ انتخابات کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کا دنیا کی سپر پاور کا صدر منتخب ہو جا نا در حقیقت ٹرمپ کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ اس کے محرکات کچھ اور ہیں سب سے پہلے تو یہ جیت صرف ٹرمپ کی نہیں بلکہ ریبلیکن پارٹی کی ہے وہ اپنی جماعت کا نامزد امیدوار تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،جماعت کی تاریخ میں جائے بغیر کیونکہ مختصر سی تحریر میں یہ ممکن نہیں ہے، امریکہ کو سب سے زیادہ نقصان چائنہ کی پروان چڑتی ہوئی معیشت نے پہنچایا کیو نکہ دو ہزار ایک سے لیکر اب تک تقریبا بارہ سے پندرہ لاکھ لوگوں کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا ، بڑے بڑے کاروبار اور فیکٹریوں کا سامان چائنہ میں تیا ر ہونے لگا کیونکہ وہاں مزدوری سستی ہونے کی وجہ سے لاگت بہت کم آتی ہے اور کاروباری لوگ ہمیشہ اپنے منافع کا ہی سوچتے ہیں اور اسکی تجارت سے جڑے تقریبا پچیس سے تیس لاکھ لوگوں کو ان مشکلات کا سامنا کر نا پڑ ا۔
اب اسے دنیا کے مختلف خطوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں کیو نکہ موجودہ دور میں نسل پرستی کو تقویت مل رہی ہے آپ بر طانیہ میں ریفرنڈم کے نتائج دیکھ لیں، سکاٹ لینڈ میں سکاٹش نیشنل پارٹی نے نسل پرستی کا نعرہ لگا یا جسے کامیابی ملی، جر منی میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملا، پھر پولینڈ میں بھی ہم نے کچھ ایسے ہی مناظر دیکھے حالانکہ یورپی یونین کی وجہ سے پولش معیشت کو کافی فائدہ پہنچا، اگر یورپ سے نکل پر ایشیا ء چلے جائے تو بھارت کا موجودہ وزیر اعظم نسل پرستوں کی کامیابی کا گنونا چہرہ ہے جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہ مسلمانو ں کے خون سے رنگے ہیں لیکن پھر بھی وہ بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہوا، برطانیہ سمیت یورپ اور امریکہ میں امیگریشن کا مسئلہ بڑا اہمیت کا حامل ہے یہی وہ بنیادی نقطہ ہے یہاں سے نسل پرستی کا آغاز ہوتا ہے کیونکہ جب مختلف خطوں اور نسل کے لوگوں کو دنیا میں مواقع فراہم ہوتے ہیں تو وہ اپنی قابلیت اور بہترا زندگی کی خاطر وہاں منتقل ہو جاتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کی توجہ ترقی یافتہ ممالک پر ہوتی ہے آج کی جدید دنیا میں کمپنیوں کو با صلاحیت اور کم تنخواہ پر ملازم چاہئے انکی فیکٹری یا کاروبار ہی انکا ملک اور ریاست ہوتی ہے پھر وہ چاہے کسی بھی ملک سے ہو ایسی صورتحال میں وہاں کے مقامی باشندوں کو لگتا ہے کہ شائد باہر سے لوگ آنے کی وجہ سے انکے لئے مواقع کم رہ گئے ہیں اور ملازمت کے حصول کے لئے مقابلہ بھی آگیا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اپنی مرضی سے کام کرتے اور انکو تنخواہ بھی زیاد ہ ملتی، اگر اس سارے پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے دنیا اب آگے جانے کی بجائے پیچھے جا رہی ہے جب ریاستوں میں بادشاہی نطام ہوتا تھا اور وہاں کے مقامی باشندے ہی تجارت اور کاروبار کیا کرتے تھے ہر ملک اور ریاست کی اپنی حدود ہوتی تھی باہر سے آنے والے لوگو ں کو یا تو غلام رکھا جاتا تھا یا پھر انہیں برابر کے شہری حقوق نہیں دئے جاتے تھے لیکن یہ سب زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا آئندہ چند سال میں دنیا میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملے گی اس گلوبل دنیا میں نسل پرستی اور تعصب سے انکا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ملک میں باہر سے لوگ نہ آئے اور آپ ترقی بھی کرے تو آپ کو چائنی قوم بننا ہو گا دن رات محنت، لگن اور ایمانداری سے کام کرنا ہو گا لیکن مغربی ممالک میں یہ ایک سہانا خواب ہی ہو سکتا ہے کیونکہ لوگ عیاش پرستی اور شراب نوشی میں ڈوبے ہوئے ہیں جب کوئی بھی قوم اس حالت میں چلی جاتی ہے تو اسکی تنزلی کا سفر شروع ہوتا ہے چائنہ کی ترقی کا راز بھی محنت اور ایمانداری ہے اور آج ساری دنیا کاروبار کے سلسلے میں چائنہ ضرور جاتی ہے اور آنے والے چند برسوں میں یہ نسل پرستی کا سایہ مغربی ممالک سے ختم ہو جائے گا کیو نکہ یہ ممالک اب اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔