انسانوں کی طرح جنگوں کی بھی بہت سی اقسام ہیں۔
انہی میں سے ایک ’’کولڈ وار‘‘ ہے جس کا ذکر سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے بہت عام تھا۔ جونہی سوویت یونین ڈوبا، لوگوں نے سمجھ لیا کہ کولڈ وار کا زمانہ بھی ختم ہوگیا۔ کولڈ وار کے خاتمے کی بات کرنے سے پہلے اس کے آغاز کی بات کرتے ہیں۔ اب سے ٹھیک سات سو برس قبل یعنی چودہویں صدی میں سپین کا ایک مشہور پرنس ’’ڈون جان مینوئل‘‘ ہوگزرا ہے۔ وہ اپنی بہت سی شادیوں کے انتخاب میں اپنی سیاسی اور معاشی ترقی کو ضرور مدنظر رکھتا تھا۔ اس کی شدید خواہش ہوتی کہ اس کی اولاد کا تعلق شاہی خاندانوں سے برقرار رہے۔ وہ اپنے وقت کا امیر ترین اورسب سے طاقتور پرنس بن گیا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے عہد کے بادشاہ کے مقابلے میں اپنی کرنسی بھی جاری کردی۔ ڈون جان کو لٹریچر کا بہت شوق تھا۔ اُس کی اِس عادت کو معاشرے میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ اُس زمانے میں لٹریچر یا ادب سے تعلق رکھنے والے معزز اور باعزت نہیں سمجھے جاتے تھے۔ تاہم ڈون جان نے اپنا کام جاری رکھا اور شاعری سمیت 13 کتابیں تحریر کیں جن میں سے اب 8 دستیاب ہیں۔ یہ ڈون جان ہی تھاجس نے سب سے پہلے کولڈ وار کی حکمت عملی کی نشاندہی کی۔ اُس نے اُس وقت کی مسلمانوں اور عیسائیوں کی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے ہسپانوی لفظ ’’ٹیپڈ‘‘ کا استعمال کیا جس کا مطلب تھا ’’نیم گرم‘‘ یعنی ’’نیم گرم جنگیں‘‘۔ انیسویں صدی میں جب ڈون جان کی ان کتب کا ترجمہ کیا گیا تو جلدبازی یا ناقص ترجمے کے نتیجے میں ترجمہ کرنے والوں نے ’’ٹیپڈ وار‘‘ کا ترجمہ ’’کولڈ وار‘‘ کردیا۔ تاہم یہ لفظ زیادہ عام نہ ہوسکا۔ اس کے بعد برطانیہ کے مشہور ناول نگار ’’جارج آروِل‘‘ نے کولڈ وار کی اصطلاح اپنے ایک مضمون ’’آپ اور ایٹم بم‘‘ میں لکھی جو 19 اکتوبر 1945ء کو برطانوی اخبار ’’ٹریبیون‘‘ میں شائع ہوا۔ جارج آروِل نے کولڈ وار کی مثال کو اُس وقت کے مغربی بلاک اور سوویت یونین کے درمیان بڑھتی کشیدگی سے جوڑا۔ اس کے بعد مشہور امریکی سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نگار ’’والٹر لپ مین‘‘ کی ایک کتاب 1947 میں ’’کولڈوار‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ کتاب کی اشاعت کے بعد یہ اصطلاح پوری دنیا میں وبائی بیماری کی طرح پھیل گئی اور 1990ء میں سوویت یونین کی تباہی کے بعد بظاہر غائب ہوگئی۔ چودہویں صدی کے ڈون جان سے لے کر بیسویں صدی میں دوسری جنگ عظیم کے مصنفین تک کے نزدیک یعنی آغاز سے لے کر 1945ء تک چھ سو برس کے درمیان کولڈ وار کے اجزائے ترکیبی ایک جیسے ہی تھے جس میں ملک ایسی حالت جنگ میں ہوتے ہیں جو براہِ راست جنگ نہیں ہوتی۔ اس میں فریقین معاشی، سیاسی، پراپیگنڈہ، سفارت کاری اور جاسوسی کے نظام کے ذریعے ایک دوسرے پر پراکسی وار مسلط کرتے ہیں۔ اس میں فریقین جنہیں ’’سیٹلائیٹ ملک‘‘ کہا جاتا ہے عموماً بڑی طاقتوں کے زیراثر رہ کر ایک دوسرے کے خلاف کولڈ وار لڑتے ہیں۔ بڑی طاقتیں اپنے اتحادی سیٹلائیٹ ملکوں کو کولڈ وار کے لئے معاشی امداد، اسلحہ، فوجی ٹیکنالوجی اور ملٹری ایڈوائزر فراہم کرتی ہیں۔ کولڈ وار کی مذکورہ تشریح میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک نیا رنگ شامل کیا گیا۔ یعنی ایک طرف سوویت یونین اور اُس کے تعلق دار ممالک، دوسری طرف امریکہ اور مغربی بلاک وغیرہ۔ کولڈ وار کی اس جدید تعریف کو سامنے رکھا جائے تو بہت واضح ہو جائے گا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی کولڈ وار ختم نہیں ہوئی بلکہ اس لفظ کا مخصوص مقاصد کے تحت باربار دہرانا ختم کیا گیا ہے جبکہ مختلف خطوں میں کولڈ وار اب بھی جاری ہے۔ اس کی حالیہ عملی صورتیں ہمیں ایران سعودی عرب کے متصادم تنازعوں اور شام وغیرہ میں کھلم کھلا ملتی ہیں۔ کولڈ وار کے فارمولے کو ہم برصغیر میں بھی لاگو کرکے دیکھتے ہیں۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ نوے کی دہائی کے درمیان تک بھارت اپنے ناتواں بھاری بھرکم بے ہنگم جسم کے باعث ڈگمگا رہا تھا اور دھڑام کرکے گرنے ہی والا تھا کہ امریکہ نے آکر معاشی اور فوجی کُشتے کھلانے شروع کردےئے۔ امریکہ اور مغربی بلاک کے نزدیک بھارت کی کسمپرسی پر ترس کھانے سے زیادہ مستقبل کی پیش بندی تھی۔ اس کا مقصد چین کا گھیراؤ تھا۔ پاکستان اور بھارت کی ازلی دشمنی اس ٹارگٹ میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ پاکستان اور بھارت کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے امریکہ مختلف کوششیں کرتا رہا لیکن نریندر مودی کے حکومت میں آنے کے بعد بھارت پاکستان کے حوالے سے مہم جوئی کرنا چاہتا تھا۔ امریکہ کے اِس خطے میں مفادات کا تقاضا تھا کہ وہ بھارت کے لاڈ اٹھائے۔ بھارت نے بھی امریکہ کی اس کمزوری کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو سبق سکھانے کی مکمل منصوبہ بندی کی۔ راز جاننے والے جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی مہینوں سے بھارت پاکستان پر کسی بڑی کاروائی کے لئے پرتول رہا تھا لیکن پہل کرنے کے نتیجے میں عالمی ردعمل سے گھبراتا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کیمپ پر حملے کو لے کر بھارت نے عالمی برادری سے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا پرمٹ حاصل کرنا چاہا لیکن کچھ عالمی سیانوں نے پاکستان کے شدید ردعمل کے باعث بھارت کو ہوش کے ناخن لینے کا کہا۔ تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تازہ صورتحال میں بھارت نے پاکستان کے خلاف ہلکی پھلکی کولڈ وار کو مکمل کولڈ وار میں بدلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کولڈ وار کے مندرجہ بالا تاریخی فارمولے کو مدنظر رکھا جائے تو یہاں سب اجزائے ترکیبی پورے ہیں یعنی بھارت پاکستان کو عالمی برادری میں سفارتی طور پر تنہا کرنا چاہتا ہے، سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرکے پاکستان کی معیشت تباہ کرنا چاہتا ہے، پاکستانی سیاست میں افراتفری پھیلانا چاہتا ہے، کل بھوشن یادیو جیسے ریاستی جاسوسوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرتا ہے اور پراپیگنڈہ کرکے پاکستان کو بدنام کررہا ہے۔ بھارت امریکہ جیسی بڑی طاقت کا سیٹلائیٹ ملک بھی ہے۔ دوسری طرف چین پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔ خطے کی بدلتی صورتحال میں ایک اہم تبدیلی یہ آئی ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ روس نے پاکستان کے ساتھ مل کر مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔ گویا برصغیر میں کولڈ وار کے تمام مصالحہ جات پورے ہیں لیکن کولڈ وار کی تاریخ بتاتی ہے کہ بھاری بھرکم اور بے ہنگم پھیلے ہوئے جسم والا سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ بھارت بھی بھاری بھرکم اور بے ہنگم جسم کا مالک ہے۔ اب فیصلہ بھارت کو ہی کرنا ہے۔ جواب پاکستان دے گا۔ جارج آروِل نے لکھا کہ ’’ایٹمی جنگ کی دھمکیوں کا سایہ ایسا امن ہے جو امن نہیں ہوتا، اسے مستقل کولڈ وار کہنا چاہئے‘‘۔