نئی آواز ( نیوز ڈیسک ) ہماری زندگیوں سے فرصت چلی گئی ہے، صرف مصروفیات ہی باقی ہیں . ہمارے وقت میں وقفہ نہیں رہا ، سب کچھ مسلسل ہے ، براہ راست ہے. مجھے یاد نہیں آ رہا کہ یہ حدیث ھے یا کہ کسی کا قول کہ “مصروفیت اور فرصت دونوں نعمت ہیں.” اب ایک نعمت کو ہم نے “ویلے پن” کے مترادف قرار دیا ہے. دوسری نعمت ایک “فیشن ایبل ایکسپریشن” اور “اسٹیٹس سمبل” کا اظہار بن چکی ہے.
میں یہ کر رہا ہوں ، میں وہ کر رہا ہوں ، میں بہت بزی ہوں ، میرے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا، ٹائم ہی نہیں ملتا. حقیقی مصروفیات سے انکار ممکن نہیں ہے. کچھ لوگ واقعی بہت مصروف ہوتے ہیں. اتنے مصروف کہ انہیں سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی. لیکن اکثریت فضول کے کاموں اور اپنی غلط ترجیحات کی وجہ سے مصروف نظر آتی ہے. بھائی آپ اتنے مصروف ہیں آپ نے کونسا ایسا کارنامہ انجام دے ڈالا؟
فرصت انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے. آج کل سوچنا کوئی کام ہے ہی نہیں. اسکو یہ کہہ کر ڈی گریڈ کیا جاتا ہے کہ کیا فارغ بیٹھے ہو کوئی کام کرو. میں ہڈ حرامی کی وکالت نہیں کر رہا . کافی مواقع آتے ہیں جب یہ جملہ میرٹ پر بولا جاتا ہوگا. مگر تنہائی، وقفہ، سکوت، خاموشی یہ انسان کی روحانی اور جسمانی بقا اور ترقی کے لئے ہر چیر سے بڑھ کر ضروری اور اہم ہیں.
پہلے پہل تو انسان چپ کر کے خاموش بیٹھ جاتا تھا. اب اگر بیوی بھی ساتھ ھو یا قریبی دوست بھی ساتھ ہوں تو خاموشی کا لمحہ فون پر نگاہیں جمانے کی وجہ سے آئے گا. جدھر دیکھو لوگ یا تو اپنے موبائل فون پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں یا کوئی اپنے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر ہے ، کوئی ٹی وی پر احمقانہ پروگرام دیکھ رہا ہے. اگر کوئی سوچ بھی رہا ہوگا، تو اسکی سوچ گلی محلے کے لیول کی ہوگی. یہی روز مرہ کے مسائل پر یا کچھ ایسی ہی لا یعنی باتیں جن کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا.
کچھ وقت خود کو بھی دینا سیکھنا چاہیے. کچھ وقت اپنے جسم کو دیں، کچھ اپنے ذہن کو، کچھ اپنی روح کو، کچھ اپنے دل کو ٹٹولیں، کچھ اپنی آنکھوں کو آرام دیں، کچھ لمحے اپنے ضمیر کو دیں، کچھ اپنی دیانت کا احتساب کریں، کچھ اپنی زبان کی “ویگن ویل” چیک کریں، کچھ اپنے جذبات کے گراف پر نظر دوڑائیں، کچھ اپنی زندگی کی رفتار کے “مین ہٹن ” کی بلندیوں اور پستیوں کو جانچیں.
یاد رکھیں ہر مصروفیت کا اختتام فرصت پر ہونا چاہیے، موت پر نہیں.