سپریم کورٹ آف پاکستان نے چاروں صوبائی حکومتوں کو ’شیشہ کیفے‘ کے خلاف فوری کریک ڈاؤن کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ان میں سے متعدد مقامات پر منشیات بھی فروخت کی جارہی ہے لیکن انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں قائم ہونے والے شیشہ مراکز کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی۔
عدالت نے چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی سے متعلق حکومت نے ایک آرڈر جاری کیا تھا کیا اس حکم پر عمل درآمد ہوسکا ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ضلعی انتظامیہ تک کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس حکم پر سختی سے عمل درآمد کروائیں جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پبلک مقامات پر مخص سگریٹ نوشی کی ممنانعت کے بورڈ آویزاں کرکے معاملے کو نمٹا دیا گیا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کو نشے کا عادی بنایا جارہا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔
سندھ حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں متعدد شیشہ کیفے کو نہ صرف بند کردیا گیا ہے بلکہ اُنھیں جرمانے بھی کیے گئے ہیں تاہم اس رپورٹ میں ان مراکز کی تعداد کا ذکر نہیں ہے۔
پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ شیشہ کیفے پر پابندی لگانے سے متعلق ایک بل پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل تو گذشتہ برس پیش کیا گیا تھا لیکن ابھی تک تو اس بارے میں قانون سازی نہیں کی گئی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب اور سندھ میں شیشہ کیفے سے متعلق زیادہ شکایات ہیں جن کو دور کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات ناگزیر ہیں۔
وفاق کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں نوے فیصد شیشہ کیفے بند کردیے گئے ہیں۔
عدالت نے چاروں صوبوں سے شیشہ کیفے کے خلاف کارروائی کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔