آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حیران کن حقیقت ہے کہ عمران خان کے ساتھ ایک ایسی خوش قسمتی جڑی ہوئی ہے جو کسی دوسرے سیاست دان کے پاس نہیں ہے۔ یعنی عمران خان جو بھی کرلیں یا کہہ دیں، معمولی تنقید وصول کرنے کے بعد پھر صاف ستھرے ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ سب کچھ کوئی دوسرا سیاست دان کہہ دے یا کرلے تو وہ سیاست دان نہیں رہے گا، اُسے سیاست سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اور میڈیا اُسے ماضی کا حصہ بنا دے گا لیکن عمران خان خم ٹھونکے وہیں کے وہیں موجود ہیں۔ آئیے چند مثالیں لیتے ہیں۔ آزاد کشمیر کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران ترکی میں ناکام فوجی بغاوت پر انہوں نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر پاکستان میں فوج آجائے تو لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے‘‘۔ یہ محض ایک بیان تھا یا اُن کی دلی آرزو، سب پر اچھی طرح عیاں ہے۔ اگر کوئی دوسرا سیاست دان سرعام ایسا بیان دیتا تو میڈیا اُسے آرٹیکل6 میں دفن کر دیتا۔ اس کی چھوٹی سی مثال چند شہروں میں لگنے والے ’’موو آن پارٹی‘‘ کے وہ بینرز ہیں جن پر ’’جانے کی باتیں ہوئیں پرانی، خدا کیلئے اب آجاؤ‘‘ تحریر تھا۔ اعتزاز احسن سمیت چند دوسرے سیاست دانوں اور کچھ اینکر پرسنز کے پاس اتنا زیادہ فالتو وقت تھا کہ انہوں نے ان بینرز پر تابڑ توڑ بیانات دےئے اورمسلسل ٹاک شوز کئے۔ ہروقت مشتری ہوشیار باش کی آوازیں لگانے والے کچھ لوگوں کو ان بینرز میں اتنی بڑی سازش نظر آئی کہ بینرز کے مالکان پر آرٹیکل6 کے مطالبے کا شور مچا دیا اور موو آن پارٹی کے لیڈر کو گرفتار کروا کے ہی دم لیا۔ اس کے برعکس عمران خان نے حال ہی میں ایک سے زائد مرتبہ کھلم کھلا فوج کو دعوت عام دی اور اپنے بیانات پر معذرت کرنے یا شرمندہ ہونے کی بجائے باربار ان کی تصدیق کی لیکن عمران خان کے خلاف آرٹیکل6 لگانے یا سیاست سے باہر کرنے کی کمپین نہیں ہوئی ۔کچھ لوگوں کا مبینہ خیال ہے کہ عمران خان دوسری جگہوں کے ساتھ ساتھ ایک دو اینکر پرسنز کی گائیڈ لائن پر بھی چلتے ہیں جنہوں نے عمران خان کو اپنے مذکورہ بیان کی تشریح بدلنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا عمران خان نے اپنے ان بیانات کے حوالے سے یہ کہا کہ ’’ان کی بیس سالہ جمہوری جدوجہد مارشل لاء کے لئے نہیں ہے‘‘۔ کوئی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ عمران خان کے منہ سے نکلے یہ الفاظ ان کے اپنے نہیں بلکہ جانے پہچانے دوست اینکر پرسنز کے ہوسکتے ہیں۔ عمران خان کی اقتدار کے لئے ازلی خواہش کے بارے میں جنرل پرویز مشرف کے ایک اہم ساتھی جنرل اپنی نجی محفلوں میں بتاتے ہیں کہ ’’مشرف مارشل لاء کے ابتدائی برسوں میں جب ایک ایسے سویلین وزیراعظم کی تلاش شروع کی گئی جو جنرل مشرف کے ہر اشارے کواپنے سرکا تاج سمجھے تو امیدواروں میں عمران خان بھی شامل تھے‘‘۔ جب اُن جنرل موصوف نے اس حوالے سے مختلف تابعداروں کے انٹرویو کئے تو عمران خان نے بھی انٹرویو دیا۔ تاہم ان جنرل موصوف نے عمران خان کوکم سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے کے باعث وزیراعظم کے لئے انٹرویو میں ’’اَن فٹ‘‘ کردیا۔ شاید اس ناکامی کے بعد ہی عمران خان نے جنرل مشرف کی مخالفت شروع کی۔ بہرحال عمران خان میڈیا کے اس ناقابل شکست دور میں بھی فوج کی آمد پر مٹھائیاں بانٹنے کا کہہ کر صاف بچ نکلے۔ اگر کوئی اور ایسا کہتا تو میڈیا اُس کا پتا ہی کاٹ دیتا۔ اسی طرح عمران خان سیاسی دھرنوں اور پریس کانفرنسوں میں اپنی باربار کی شادی کی تمناؤں کو دہراتے رہتے ہیں لیکن میڈیا والے اسے بڑھاپے میں بھی جوانی دیوانی کی ایک ادا سمجھ کر مسرور ہو جاتے ہیں۔ کوئی اور سیاست دان عمران خان کی طرح اپنی سابقہ یا مستقبل کی ازدواجی زندگی کے معاملات سرعام لاتاتو میڈیا اُسے پھونک مارکر غائب کردیتا۔ مثلاً طلاق کے باوجود اپنی سابقہ بیوی جمائما سے میل ملاقات رکھنا، برطانیہ میں اُس کے گھر جاکر رہنا، جمائما کے بھائی کی سیاسی کمپین کو اپنی کمپین سمجھ کر چلانا جیسی باتیں یا ان سے بڑھ کر اپنی جوانی میں سیتاوائٹ سے نکاح کئے بغیر اُس کی بیٹی کا باپ بن جانا جیسے اعمال کوئی اور سیاست دان کرتا تو بغیر سوچے بتایا جاسکتا ہے کہ اُس کا کیا حشر ہوتا لیکن عمران خان اپنا دامن جھاڑ کر 64برس کی عمر میں مبینہ تیسری شادی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاست میں میڈیا پر غیر اخلاقی زبان استعمال کرنا، سستے لوگوں کی طرح سیاسی مخالفین کو تڑیاں دینا اور بڑھکیں مارنا، سنی سنائی بات پر سیاست کرنا مثلاً دھرنے کے لئے 35 پنکچروں کو جواز بنانا اور حقیقت واضح ہوجانے پر شرمندہ بھی نہ ہونا، سیاست میں خواتین کا بھی احترام نہ کرنا، بغیر تصدیق کے ری ایکٹ کرنا مثلاً اپنی بہن کی شکایت پر مریم نواز کے خلاف بدتہذیبی سے بات کرنا، پہلے طالبان کی حمایت کرنا پھر مخالفت کرنا، پہلے خیبرپختونخوا کی حکومت کا مدرسے کو فنڈ دینے کا دفاع کرنا پھر فنڈ دینے کے اقدام سے لاعلمی ظاہر کرنا، سرکاری عہدہ رکھے بغیر اپنے لمبے چوڑے پروٹوکول پر نظر ڈالے بغیر حکمرانوں کے سرکاری پروٹوکول پر تنقید کرنا، اپنے سینکڑوں کنال کے محل کو چھوڑ کر دوسروں کے محلات پر پتھر مارنا، غرور کے رول ماڈل کے طور پر پہچانے جانے کے باوجود دوسروں کے غرور کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا، اپنی پارٹی میں غیرجمہوری اور ڈکٹیٹرشپ رویہ رکھنے کے باوجود دوسروں کو جمہوریت کا درس دینا، میانوالی میں اپنی یونیورسٹی کی حدود بڑھانے کے لئے غریب کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی دھمکی دینا اور حکمرانوں کے قبضہ مافیا کے خلاف بات کرنا، ماضی میں جنرل حمید گل کے ساتھ مل کر عبدالستار ایدھی کے کندھے پر بندوق رکھ کے بینظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹانے کی کوشش کرنا اور ایدھی صاحب کو ایسا نہ کرنے پر دھمکیاں دینا، دوسری پارٹیوں کے ایسے عناصر جو کرپشن کی کھلی داستان ہیں انہیں پی ٹی آئی میں قبول کرنا، پہلے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو پاکستان کی بدقسمتی کی علامتیں کہنا پھر ن لیگ کے خلاف پیپلز پارٹی سے اتحاد کی بات کرنا، اقتدار کے لئے ہروقت کسی بھی قسم کا سہارا لینے کے لئے تیار رہنا، صحافت کا احترام نہ کرنا اور کئی مرتبہ میڈیا والوں کو زدوکوب کرنا یا میڈیا کی زبان زبردستی بند کرنے کی کوشش کرنا۔ اب آپ ہی کہیے کہ کسی بھی دوسرے سیاست دان میں قول و فعل کا اتنا عملی تضاد ہوتا تو کیا ہوتا؟ سوچو ذرا! ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟ وہ ایک کمرے میں بند ہو جاتا اور چابی کھو جاتی۔