اگر کوئی فرد اچھے آموں کے باغ سے تازہ آموں کی پیٹی گھر لے کر آئے، پیٹی کا ڈھکن کھلنے پر اوپر اوپر سے نظر آنے والے آم کہیں کہیں سے گلے سڑے ہوں تو گھر والے آموں کی اوپر کی تہہ ہٹاکر دوسری اور تیسری تہہ سے عمدہ آموں کی توقعات جوڑ لیتے ہیں لیکن تمام آم نکال لینے کے باوجود اگر حسبِ توقع خوش ذائقہ اچھے آم نہ مل سکیں تو گھر والے مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ آم اچھے باغ کے تھے، اچھی قیمت بھی ادا کی پھر بھی آم خراب نکلے۔ کیا یہ اُن کی قسمت تھی یا اِس کا تعلق پیٹی میں آم بھرنے والوں کی بددیانتی سے تھا؟ اس مثال کو ہم اپنے ملک کی جمہوریت سے جوڑتے ہیں۔ سیاست کرنے اور حکومت چلانے کے جدید نظریات میں جمہوریت کو بہترین ذریعہ قرار دیا گیا ہے لیکن جب ہم مغرب سے جمہوریت کو اپنے گھر لے کر آئے تو جمہوریت کا میٹھا رس پینے کے منتظر سب لوگ مایوس ہوتے گئے۔ مایوسی کی یہ کہانی نئی نہیں پرانی ہے لیکن ہم موجودہ کہانی کوہی لیں گے۔ جمہوریت میں ابن سلطان کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس میں ابن غریب بھی حکومت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ مغرب میں خاندانی سیاست جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہے جبکہ ہمارے ہاں اسے آب حیات بناکر پیا جاتا ہے۔ یورپ امریکہ جیسے جمہوریت کے اچھے باغوں میں عوام کے ٹیکس کی رقم کو انتہائی مقدس امانت سمجھا جاتا ہے۔ ہماری جمہوریت میں عوام کے ٹیکس کی رقم کے ساتھ اٹھا کر لائی ہوئی غریب کی لڑکی سے زیادہ بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ وہاں کی جمہوریت میں بڑی بڑی رقوم تو ایک طرف سرکاری خزانے کو ایک پیسے کا نقصان پہنچانے والے کوبھی پلک جھپکتے میں بدترین مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ اگر وہ مربھی جائے تو اس کی قبر سے نفرت کی جاتی ہے۔ ہماری جمہوریت میں آف شور کمپنیوں کا ڈھٹائی سے دفاع کیا جاتا ہے۔ سوئس بینکوں میں رکھی کھربوں ڈالر کی چوری کی رقم کو حق حلال کی کمائی بتایا جاتا ہے۔ بینکوں سے قرضے معاف کراکر فیکٹریوں کے مالک بن جانے والے بینکوں میں اصلاحات کا شور مچاتے ہیں۔ یورپ امریکہ جیسے جمہوریت کے اچھے باغوں میں قانون سب کے لئے برابر ہوتا ہے۔ وہاں ٹریفک کی خلاف ورزی پر امریکہ کے صدر کی بیٹی کوبھی گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ وہاں فرانس کے صدر کو آبدوزوں کے لین دین میں کمیشن کے شبہے میں پوچھا جاسکتا ہے۔ وہاں برطانیہ میں معمولی نوکری کے لئے کسی کی سفارش کرنے پر وزیر داخلہ کو استعفیٰ دینا پڑجاتا ہے۔ ہماری جمہوریت میں درجن سے زائد سنگین اشتہاری ملزموں کے سرپرست کو چھڑانے کے لئے وزیر کا بھائی حکومتی اہلکاروں پر ہلہ بول دیتا ہے۔ یورپ امریکہ جیسے جمہوریت کے اچھے باغوں میں معاشرے تھوڑے عرصے میں ہی ترقی یافتہ بن جاتے ہیں۔ ہماری جمہوریت میں معاشرہ ستر برسوں میں بھی ترقی نہیں کرسکا۔ وہاں کی جمہوریت میں حکمران عوام کی خوشحالی کے بل بوتے پر حکومت کرتے ہیں۔ ہماری جمہوریت میں حکمران عوام کی بدحالی کے بل بوتے پر حکومت کرتے ہیں۔ وہاں کی جمہوریت میں ادارے بالادست اور حکمران اداروں کے ماتحت ہوتے ہیں۔ ہماری جمہوریت میں حکمران اداروں کو ماتحت بناکر خود بالادست بنتے ہیں۔ اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟ ہم جمہوریت کی پیٹی اچھے باغوں سے لے کر آئے لیکن پیٹی کھلنے پر مایوسی ہوئی۔ کیا یہ ہماری قسمت تھی یا جمہوریت کی پیٹی میں فروٹ بھرنے والوں کی بدترین بددیانتی؟ اب یہی سب سیاست دان متحدہ اپوزیشن اور حکومت کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ عوام کی اکثریتی رائے ہے کہ ایک دوسرے کو کرپٹ کہنے والے ایک دوسرے سے بڑھ کر کرپٹ ہیں۔ جلسے جلوس اور اظہار رائے کی آزادی وہاں کی جمہوریت کی خوبصورتی ہوتی ہے لیکن ہمارے سیاست دانوں کی مفاد پرست سیاست کے باعث جمہوریت کی اس خوبصورتی سے عوام نفرت کرنے لگے ہیں۔ ہمارے ہاں جلسے جلوسوں اور دھرنوں میں لوگوں کے روزگار ختم ہوجاتے ہیں، تعلیمی اداروں میں تعلیمی ماحول تباہ ہوجاتا ہے، مریض جلسے جلوسوں اور دھرنوں میں پھنس کر سڑکوں پر دم توڑ دیتے ہیں لیکن جمہوریت کے نام پر اگنے والے یہ زہریلے کانٹے اپنے آپ کو گلاب کا پھول کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انتخابات کے مسلسل انعقاد سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں کئی انتخابات کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، نواز شریف، شہباز شریف کے بعد بلاول بھٹو زرداری، آصفہ زرداری، مریم نواز اور حمزہ شہباز وغیرہ مضبوط ہوئے ہیں۔ مارشل لاء ڈکٹیٹر بے عزت ہوکر چند برسوں میں چلے جاتے ہیں لیکن جمہوری ڈکٹیٹر بے عزت ہونے کے باوجود دہائیوں میں بھی نہیں جاتے اور جانے سے پہلے اپنی نسل چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستانی لوگ ایسی جمہوریت سے باز نہ آئیں تو کیا کریں؟ جمہوریت میں اختلافات اور بحث وتکرار کی جگہ اسمبلیاں اور پارلیمنٹ ہوتی ہے جہاں ہمارے سیاست دان جانے پر توہین محسوس کرتے ہیں۔ یہ سب اپنی سیاست کا تماشا سڑکوں پر لگاتے ہیں۔ سڑکیں بند ہونے سے زیادہ تر عام شہری متاثر ہوتے ہیں جو اس سیاسی مافیا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ 65ء اور 71ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران کبھی عام سڑکیں اس طرح بند نہیں ہوئیں جیسے حالیہ جلسوں اور دھرنوں میں کی گئی ہیں۔ پاک بھارت جنگوں کے دوران کبھی عام شہری اس طرح متاثر نہیں ہوا جس طرح ہمارے حالیہ سیاسی جلسوں اور دھرنوں سے ہوئے۔ متحدہ اپوزیشن کے جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے موجودہ منصوبوں کو سن کر عوام ابھی سے نفسیاتی خوف کا شکار ہیں۔ پاکستانی لوگ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ ازخود نوٹس لے کر ان سیاست دانوں کو مفاد پرستی کے لئے سڑکوں پر جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے روکیں۔ سڑکیں عوام کی سہولت کے لئے بنائی جاتی ہیں، ان کا استعمال ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے۔ سڑکوں کو جلسوں اور دھرنوں کے لئے بند کرکے عوام کو بنیادی شہری حقوق سے محروم کرنا کیا آئین میں دےئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا اس پر آرٹیکل6 کا اطلاق نہیں ہوسکتا؟