عظیم ایدھی صاحب کو ’’نشانِ پاکستان‘‘ دیا جائے: سید سردار احمد پیر زادہ

پاکستان کے پہلے نا بینا صحافی:  سید سردار احمد پیر زادہ
پاکستان کے پہلے نا بینا صحافی: سید سردار احمد پیر زادہ

محمد خان جونیجو کی حکومت میں ایک زورآور وفاقی وزیر تھے۔ وہ جونیجو کابینہ کے رکن تھے لیکن انہیں اصل طاقت براہِ راست جنرل ضیاء الحق سے ملتی تھی۔ ایک مرتبہ وہ موصوف وزیر اپنے آبائی گھر کے برآمدے میں کچھ لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ اُسی وقت کوٹھی کے مرکزی گیٹ سے ایک بوڑھا داخل ہوا۔ اُس کی کمر حالات کے بوجھ سے پوری طرح جھک چکی تھی۔ اُس کی لاٹھی کی ٹک ٹک نے سب حاضرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ بوڑھا جب وزیر موصوف کے عین سامنے پہنچا تو وزیر صاحب نے مقامی زبان میں اُسے خوش آمدید کہتے ہوئے آنے کی وجہ پوچھی۔ بوڑھے شخص نے وفاقی وزیر کو اپنے جدی پشتی تعلقات یاد کروا کرکہا کہ ’’میں اور میرے ساتھ رہنے والی میری دونسلیں بری طرح مفلسی کا شکار ہیں۔ آپ مہربانی کرکے مجھے کچھ سرکاری امداد دلوا دیں‘‘۔ جونہی اُس بوڑھے کی التجا مکمل ہوئی وفاقی وزیر نے بڑی حاضر دماغی سے اُس غریب بوڑھے کو جواب دیا کہ ’’یار تم امداد کی بات کررہے ہو، میں تو تمہیں اس علاقے کی زکوٰۃ کمیٹی کا چےئرمین بنانا چاہتا ہوں‘‘۔ غریب بوڑھے نے جیسے ہی وفاقی وزیر کے یہ الفاظ سنے اُسے اپنے اندر طاقت آتی محسوس ہوئی۔ لوگوں نے دیکھا کہ چند سیکنڈ پہلے کا افسردہ اور لاغر بوڑھا اب کھلا کھلا اور توانا لگ رہا تھا۔ بوڑھے نے بڑی شفقت سے اپنے یار وفاقی وزیر کو جھک کر سلام کیا اور اُسی مرکزی گیٹ سے واپس چلا گیا جہاں سے وہ آیا تھا۔ بوڑھے کے گیٹ کراس کرتے ہی سامعین میں سے ایک بولا ’’سر! آپ نے اس بوڑھے کو کمال طریقے سے ہینڈل کیا۔ یہ آپ سے امداد مانگنے آیا تھا، اب چےئرمین زکوٰۃ کمیٹی کے لارے میں ہی رہے گا‘‘۔ وفاقی وزیر نے یہ بات سن کر ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ چند دن قبل یہ واقعہ اُس وقت بڑی شدت سے یاد آیا جب وفاقی وزیر پرویز رشید نے ایدھی صاحب کی عیادت کے بعد میڈیا سے بات کی۔ ایک صحافی نے محترم وزیر سے سوال کیا کہ ’’ایدھی صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے حکومت اُن کے نام کا ڈاک ٹکٹ کیوں نہیں جاری کرتی؟‘‘ موجودہ وفاقی وزیر نے جونیجو حکومت کے ماضی کے وفاقی وزیر کی حاضر دماغی جیسی حاضر دماغی سے جواب دیا کہ ’’ایدھی صاحب کو کسی اعزاز کی ضرورت نہیں ہے، سب اعزاز اُن سے چھوٹے ہیں‘‘۔ پرویز رشید کا یہ کہنا ٹھیک تھا کہ ’’ایدھی صاحب کے لئے سب اعزاز چھوٹے ہیں‘‘ لیکن اس کا کیا یہ مطلب ہونا چاہئے کہ ایدھی صاحب کی خدمات کا سرکاری سطح پر بھرپور اعتراف ہی نہ کیا جائے؟ پرویز رشید کے بیان کی تشریح ایسے بھی کی جاسکتی ہے کہ اولاد ماں باپ کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی لہٰذا اولاد اپنی فرمانبرداری کو ماں باپ کے احسانات کے آگے کمتر سمجھتے ہوئے والدین کے لئے اپنے فرائض ہی ادا نہ کرے۔ ایدھی صاحب 19 برس کی عمر میں 1947ء میں کراچی آئے۔ انہوں نے معمولی فنڈ سے ایدھی فاؤنڈیشن قائم کی۔ اُن کی ایمانداری اور خلوصِ نیت سے دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے کے باعث ایدھی فاؤنڈیشن پر لوگوں کا اعتماد بڑھتا گیا اور عطیات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا۔ اِس وقت ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس رکھنے کا اعزاز بھی ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس ہی ہے جس کے باعث 2000ء میں ایدھی فاؤنڈیشن کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل کیا گیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن اب تک بیس ہزار سے زائد نومولود لاوارث بچوں کی وارث بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ تاحال چالیس ہزار سے زائد یتیموں کی سرپرستی کی، چالیس ہزار سے زائد نرسوں کو انسانیت کی خدمت کے لئے تیار کیا اور پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں تین سو تیس فلاح وبہبود کے سینٹر قائم کئے۔ یہ لاتعداد سینٹرز فوڈ کچن، بحالی مرکز، بے آسرا خواتین اور بچوں کے لئے شیلٹر ہوم اور ذہنی معذوروں کے لئے کلینک کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے انسانیت کی خدمت کو سرحدوں کا پابند نہیں بنایا۔ ان کی خدمت خلق کی سرگرمیاں افریقہ، مڈل ایسٹ، مشرقی یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں بھی جاری رہتی ہیں۔ دنیا بھر میں انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لئے سفر کے دوران ایدھی صاحب کو بے حد بوسیدہ لباس پہننے کے باعث کئی گرفتاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جن میں 80ء کی ابتدائی دہائی میں لبنان داخل ہوتے ہوئے اسرائیلیوں کے ہاتھوں گرفتاری، 2006ء میں ٹورنٹو کینیڈا میں سولہ گھنٹے کی حراست اور جنوری 2008ء میں جان ایف کینیڈی اےئرپورٹ امریکہ پر آٹھ گھنٹے تک امیگریشن حکام کی پوچھ گچھ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ تمام تر مشکلات کے باوجود اپنا مشن جاری رکھنے پر بین الاقوامی سطح پر بھی ایدھی صاحب کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اورانھیں لاتعداد اعزازات سے نوازا گیا جن میں لینن پیس پرائز، سوویت یونین کا امن انعام، یو اے ای کا ہمدان ایوارڈ، انٹرنیشنل بلزن پرائز اٹلی، امن اور ہم آہنگی کا ایوارڈ دہلی، امن ایوارڈ ممبئی، امن ایوارڈ حیدرآباد دکن، گاندھی امن ایوارڈ دہلی، امن ایوارڈ جنوبی کوریا اور یونیسکو مدن جیت سنگھ پرائز وغیرہ شامل ہیں۔ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت نے انہیں 1989ء میں ’’نشانِ امتیاز‘‘ سے نوازا۔ اس کے علاوہ انہیں بے شمار تنظیموں کے اعزازات سمیت پاک فوج کی طرف سے شیلڈ آف آنر بھی دی گئی۔ ایدھی صاحب کو 2011ء میں اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے نوبل انعام کے لئے ریکمنڈ بھی کیا گیا۔ آصفہ بھٹو کی ایدھی صاحب کی حالیہ تیمارداری کے بعد اکثر وی آئی پی شخصیات کا ایدھی صاحب کی موجودہ تیمارداری میں جوش وخروش شاید اس لئے بھی ہے کہ خدانخواستہ کسی بری خبر سے پہلے دوہرے چہرے والے احترام کی رسمی کاروائی پوری کرنا چاہتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے انسانیت کی خدمت کا سبق اپنے بچپن میں اپنی اپاہج ماں کی خدمت سے سیکھا لیکن انہوں نے کبھی بھی کسی دوسرے کی طرح ماں کے نام کی فلاحی سرگرمیوں کو سیاست میں کیش کروا کے اقتدار کی ہوس نہیں کی۔ ہماری سیاسی جماعتیں مختلف ایشوز پر پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن بلاتی ہیں اور صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں منظور کرتی ہیں۔ کیا ایدھی صاحب کے احترام میں پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلاکر انہیں خراجِ عقیدت پیش نہیں کیا جاسکتا؟ اگر پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’’نشانِ پاکستان‘‘ ملکہ برطانیہ، امریکی صدور، چینی سربراہان اور نیلسن منڈیلا سمیت کئی بین الاقوامی شخصیات کو دیا جاسکتا ہے تو پاکستان کی غیرمتنازع بین الاقوامی شخصیت عبدالستار ایدھی صاحب کو ’’نشانِ پاکستان‘‘ کیوں نہیں دیا جاسکتا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں